صورت، حقیقت اور کشف
حضرت مولانا اللہ یار خانؒ،دلائل السلوک بابِ کشف و الہام
علماء ظاہر بیں اور حقیقت شناس عارفین میں یہی فرق ہے، جیسا کہ فیض الباری ۱:۱۸ پر فرمایا:۔
ونظر العلماء احکم ونظر ارباب الحقاء اسبق والطف فھم یمشو علیٰ ما یظھر من ظاھر السریعۃ وھو لاء یداعون ماکشف اللہ سبحانہ علیم من حقائق المشریعۃ و جیۂ واسرارھا وفی الحدث لکل اٰیۃ ظھر وبطن لکل حد مطلع ولکن من لم یجعل اللہ لہ نورا فمالہ من نور
علماء ظاہر کی نگاہ مضبوط ہے، مگر ارباب حقائق صوفیہ کی نگاہ بہت آگے ہے اور بڑی لطیف ہے۔ علما مظاہر تو ظاہر شریعت پر عمل کرتے ہیں، اور اولیاء اللہ ان امور کی رعایت ملحوظ رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ شریعت کے حقائق ورموز میں سے بذریعہ کشف ان پر ظاہر کرتا ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ ہر آیت قرآنی کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور ہر چیز کی ایک حد ہے لیکن جسکو اللہ تعالیٰ نور بصیرت نہ دے اس کے لئے کوئی نور نہیں۔
صورت شے اور حقیقت شے میں جو فرق ہے اس کو سمجھنے کے لئے حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضر ؑ کا واقعہ کافی ہے۔
کچھ برخود غلط قسم کے لوگ علم حقائق اور علم اسرار کو علم غیب کی قبیل سے شمار کرتے ہیں۔ اور علم غیب خاصہ الٰہی ہے، اس لئے کشف کا انکار کردیتے ہیں۔ اس کا علمی جواب گزشتہ کسی باب میں دیا جا چکا ہے۔ اصل بات یہ نہیں کہ اعتراض میں کوئی وزن ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن و حدیث کو اپنا رہنما بنا کر ان کے پیچھے چلنے کے عادی ہی نہیں، یہ اللہ و رسول کو اپنے پیچھے چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے قرآن و حدیث میں سے صرف اسی کو حق سمجھتے ہیں، جو ان کے اپنے ایجاد کردہ عقیدہ کے مطابق ہو۔
فیض الباری ۱:۱۵۱ پر اس مسئلے پر اصولی بحث کی گئی ہے:۔
اعلم ان ھذہ الخمس لما کانت من الامور التکوینیۃ دون الشریعۃ لم یظہر علیھا احدا من الانبیاء الا بما شاء وجعل مفاتیحہ عندہ فقال وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الا ھو لانھم بعثر اللتشریح فالمناسب لھم علوم التشریح دون التکوین ثم المراد منہ اصولھا ولما علم الجزئیات فقد یعطی منہ الاولیاء رحمھم اللہ تعالیٰ ایضا لان علم الجزئیات لیس بعلم فی الحقیقۃ لکونھا محظا للتوصلات والتغیرات محظا
خوب سمجھ لو کہ مغیبات خمسہ کا تعلق امور تکوینی سے ہے، تشریعی سے نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق کسی نبی کو اطلاع نہیں دی۔ اور اس کی چابیاں اپنے پاس رکھیں اور فرمایا کہ غیب کی چابیاں اس کے پاس ہیں، اس کے بغیر انہیں کوئی نہیں جانتا۔ چونکہ انبیاء کرام شریعت کے احکام بیان کرنے کے لئے مبعوث ہوتے ہیں، اسلئے ان کے منصب کے مناسب شریعت کے علوم ہی ہیں امور تکوینی نہیں۔ پھر علوم خمسہ سے مراد اصول علم ہیں، جزئیات نہیں۔ جزئیات کا علم اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو بھی دے دیتا ہے، کیونکہ جزوی علم حقیقت میں علم ہی نہیں، کیونکہ وہ قابل تغیر و تبدل ہے۔
اسی حقیقت کو ملا علی قاری ؒ نے مرقاۃ۱:۷۶ پر یوں بیان فرمایا
فان قلت قد اخبر الانبیاء والاولیاء بشیئی کثیر من ذالک وکیف الحصر قلت الحصر فاعتبار کلیاتھا دون جزئیاتھا۔
اگر تو کہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان مغیبات میں سے بہت سے حصوں کے متعلق انبیاء اور اولیاء کو خبر دے دی ہے تو حصر کیسے ہوا؟ میں کہوں گا کہ کلیات کے اعتبار سے حصر ہے، جزئیات کے لحاظ سے نہیں یعنی جزئیات میں سے انبیاء اور اولیاء کو اطلاع دیدی جاتی ہے جو مانع حصر نہیں۔
نگاہ کا صورت شے تک پہنچ کر رک جانا بڑا حجاب ہے اور یہ حجاب در حقیقت عذاب ہے، جیسا کہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ۱:۱۵۱ پر وَمَنْ لَمْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہ‘ نُوْراً فَمَالَہ‘ مِنْ نُّوْرٍ (۲۴:۴۰)کے سلسلے میں فرمایا:قالت السادۃ الصوفیۃ الحجاب اشد العذاب صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ حجاب شدید ترین عذاب ہے۔ اس سلسلے میں ایک سوال توجہ طلب ہے کہ انبیاء کرام اور اولیاء اللہ کو کشف میں اشیاء قبل از وجود جو دکھائی دیتی ہیں، وہ کونسا وجود ہوتا ہے؟ کیا یہ وجود مثالی ہوتا ہے؟ کچھ لوگوں نے اپنی اٹکل سے یہی رائے ظاہر کی ہے کہ وہ اشیاء کا وجود مثالی ہوتا ہے۔ مگر یہ رائے محض بے بنیاد ہے کیونکہ:
(۱)مثال اس چیز کی ہوتی ہے جس کا وجود اصلی پہلے موجود ہو۔ جب ممثل لہ کا وجود ہی نہیں تو مثال کس کی ہوگی؟
(۲)انسانوں میں وجود مثلی سے تماثل نوعی مراد ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی نوع انسانی کے فرد ہیں، اس لئے وجود مثالی کو کون کہہ سکتا ہے کہ اسی انسان کافرد ہے۔ جب مثال شے دیدنی ہے نہ بودنی جیسا کہ خواب میں دکھائی دینے والی چیز کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوتا، بلکہ اس کا وجود صرف دیکھنے کی حد تک ہے۔ پھر معدوم ہو جاتا ہے۔
(۳)کشف میں جو وجود نظر آتا ہے وہ اس طرح کا ہے جیسے کسی مقرر کے ذہن میں تین چار گھنٹے کی تقریر کا وجود موجود ہوتا ہے۔ پھر اسی تقریر کو زبان پر لاتا ہے، یعنی جس تقریر کا وجود علمی تقدیری اس کے ذہن میں موجود تھا، اسی وجود کو زبان پر لاکر بیان کیا۔ اگر مقرر کے ذہن میں تقریری کا وجود مثالی مانا جائے تو علم بھی وجود مثالی کا ہوگا، اور تقریر بھی وجود مثالی کی ہوگی، کیونکہ جب اصل وجود کا علم ہی نہ تھا تو اس کا بیان کیونکر ہوگا۔
اسی طرح مستری کے ذہن میں مکان کو جو نقشہ ہوتا ہے، وہی مادی طور پر اینٹ پتھر سے مل کر خارج میں ظاہر ہوا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے ذہن میں وجود مثالی کا نقشہ تھا اور مکان مثالی ہی تیار ہوا۔ مختصر یہ کہ جو وجود ذہن میں ہوتا ہے اس پر خارج میں ثمرات، اثرات اور احکام کی بنا ہوتی ہے۔
اسی طرح تمام اشیاء کا وجود علمی، تقدیری عنداللہ حاضر ہے، وہ اپنے قدیم ازلی علم سے ان کو جانتا ہے، وہی وجود اپنے وقت پر خارج میں مادی دنیا میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔
فان الوجود الخارجیۃ ھو ما یکون مبدأ الاثار ومظھر الاحکام وعلیہ ترتیب الثمرات ما کان لوجود الذھنی۔
پس وجود خارجی آثار کا مبدأ ہے اور احکام کا ظاہر کرنے والا ہے، اور اسی پر وجود ذہنی کے ثمرات مرتب ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر شے کا وجود اس کی پیدائش سے پہلے عالم تقدیر میں موجود ہوتا ہے، جس کو وجود علمی و تقدیری کہا جاتا ہے۔ جس نے دنیا میں آنا ہے اسی وجود پر اللہ تعالیٰ انبیاء اور اولیاء کو مطلع فرماتے ہیں یعنی ان کے جزوی واقعات کے متعلق اطلاع من اللہ ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اطلاع دے دی تو غیب نہ رہا۔
علم غیب کی تعریف یہ ہے
لا یعرف بالحواس الظاھرۃ ولا ببداھہ العقل اس لئے جس کو ظاہری آنکھیں دیکھ لیں یا عقل کی روشنی سے معلوم ہو سکے وہ غیب کی تعریف میں نہیں آتا۔ غیب کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ علم اس کا ذاتی ہو، کسی واسطہ یا ذریعہ سے حاصل نہ کیا گیا ہو۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ حادث نہ ہو اس کی ابتدا اور انتہا نہ ہو۔
جو علم ذاتی نہ ہو، وحی، کشف یا الہام کے واسطہ سے حاصل ہو یا خواب کے ذریعہ سے حاصل ہو اسے علم غیب کہنا صرف ان لوگوں کا کام ہے جو سراپا جہالت میں غرق ہیں اور جنہیں علم کی ہوا بھی نہیں لگی۔