یادیں اُن کی
میجر ریٹائرڈ غلام محمد
یہ فروری 1970ء کی بات ہے، میں رسالپور میں تھا۔ کچھ دنوں کے بعد محمد احسن بیگ کی رسالپور آمد ہوئی تو بہت باتیں سننے کو ملیں۔میری جو ایک دو ملاقاتیں ان سے ہوئیں ان میں انہوں نے اپنے استاد المکرم حضرت مولانااللہ یار خان کا تذکرہ کیا۔ حضر ت جی کا شمار پاکستان کے چوٹی کے علماء میں تھا۔ وہ اہل تشیع کے خلاف بلند پایہ مناظر تھے۔ ان کے جلسوں اور تقریروں کے بڑے بڑے پوسٹر دیواروں پردیکھ چکا تھا مگر تا حال ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ایک دن میں احسن بیگ کے پاس پینٹ لینے گیا۔ میری یونٹ کی سالانہ ٹیکنیکل انسپکشن تھی اور رسالپور میں ان کے بغیر اور کسی کے پاس پینٹ نہ تھا۔ کیپٹن احسن بیگ نے مجھے اگلے روز پینٹ دینے کا وعدہ کیا اور ساتھ ہی بتایا کہ حضرت مولانا اللہ یار خان صاحب ان کے پاس آئے ہوئے ہیں۔ رات کو محفل ذکر ہو گی۔ شمولیت کے لئے ضرور آنا۔
میرا تعلق خانقاہ سراجیہ کندیاں سے تھا اور تقریباً گیارہ سال سے حضرت مولانا خان محمد سے منسلک تھا۔ میں سوچ میں پڑ گیا جاؤں یا نہ جاؤں۔ شام کلب میں فلم دیکھنے کا پروگرام بھی تھا۔ چنانچہ شام سے پہلے ہی دو تین کاریں میرے گھر پہنچ گئیں تاکہ مجھے اپنے ساتھ کلب میں لے جائیں۔ میں سخت تذبذب میں تھا اگر احسن بیگ کے گھر نہیں جاتا تو وہ ناراض ہو کر پینٹ دینے سے انکار کر سکتا تھا۔ اس طرح میری ٹیکنیکل انسپکشن کا بیڑہ غرق ہو سکتا تھا۔ لہذا میں نے پینٹ کومدِنظر رکھ کر کلب جانے سے انکار کر دیا اور شلوار قمیض پہن کر احسن بیگ کے گھر چلا گیا۔ جیسے ہی میں ڈرائنگ روم میں داخل ہوا حضرت المکرم وضو فرما کر باہر نکلے تھے۔ احسن بیگ نے میر ا تعارف کرایا۔ میں نے مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا مگر حضرت المکرم میرا ہاتھ نظر انداز کر کے آگے بڑھ گئے اور مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ شاید میں اس قابل بھی نہیں کہ مجھ سے کوئی اہل اللہ مصافحہ کرے۔
میں ان کے پیچھے چل پڑا۔ سڑک عبور کر کے حضر ت جی کنٹونمنٹ بورڈ کی ایک چھوٹی سی مسجد میں نماز پڑھانے تشریف لے گئے۔ میں بھی وضو کر کے جماعت میں شریک ہو گیا۔ جیسے ہی حضر ت جی نے قرأت شروع کی مجھ پر عجیب رقت طاری ہو گئی اور نماز کے دوران بے ساختہ روتا رہا۔ نماز اور نوافل سے فارغ ہو کرسب لوگ احسن بیگ کے گھر جمع ہو گئے تو میں بھی باقی افسروں (جن میں کیپٹن (بریگیڈ ئیر) محمد حنیف، کیپٹن (میجر) عمر حیات، کیپٹن زین العابدین، فلائیٹ لیفٹیننٹ ہادی حسین شاہ موجود تھے) کے ساتھ اگلی قطار میں بیٹھ گیا۔ ایک لمبا سا آدمی کھڑا ہو گیا اور بتانے لگا کہ ہمارا سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ ہے،ہم پاس انفاس سے ذکر کرتے ہیں، ذکر کرتے وقت قبلہ رخ قطاروں میں شیخ کے بائیں بیٹھ کر آنکھیں اور منہ بند رکھ کر اندھیرے میں وصول اِلی اللہ کیلئے لطائف پر اللہ ھو کی ضربیں لگاتے ہیں۔ہمیں روحانی فیض شیخ کے توسط سے براہ راست محمد رسول اللہﷺ سے اویسی طریقہ پر ملتا ہے۔جب وہ اپنی بات ختم کر چکا تو میرے بارے میں حضر ت جی سے پوچھا کہ کیا یہ محفل ذکر میں بیٹھا رہے؟حضر ت جی نے فرمایا کہ اس علاقے کی مٹی میں اخذِ فیض کی صلاحیت نہیں،انھوں نے اپنے بڑوں سے اولیاء اللہ کی مخالفت ہی سیکھی ہے۔ یہ کیا ذکر کرے گا۔اس کے بعد اس لمبے آدمی نے سختی کے ساتھ مجھے حکم دیا کہ میں یہاں سے اٹھ جاؤں۔میں وہاں سے اٹھ تو گیا مگر شاید مجھ میں اس قدر ذلیل و خوار ہو کر نکلنے کی ہمت نہیں تھی۔میں سب سے پیچھے جوتیوں میں بیٹھ گیا۔
اس دوران لائٹ بند ہو چکی تھی اور حضر ت جی نے سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَر وَ لَاحَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ الاَّبِاللّٰہِ الْعَلِیِّ اْلعَظِیْم۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اللہ اللہ اللہ ھو۔چلو پہلا لطیفہ قلب کہہ کر ذکر شروع کرایا۔پندرہ بیس منٹ کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے کمرے میں روشنی تھی۔میں نے فوراً آنکھیں بند کر لیں۔کچھ دیر کے بعد میں نے بہت زیادہ روشنی کی موجودگی میں جب آنکھیں کھول کے دیکھا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گیئں۔انوارات تجلیات کی شکل میں حضرت جی ؒکے سینہ مبارک سے نکل کر دیگر احباب کی طرف لپک رہے تھے اور انہی انوارات نے تمام کمرے کو بے حد منور کیا ہوا تھا۔ مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ یا اللہ یہ کیسا شخص ہے۔ایسے آدمی تو کتابوں میں پڑھے تھے۔اس دور میں کیسے پیدا ہو گئے۔جب ذکر ختم ہوا تو میں پوری طرح حضر ت جی ؒکی روحانی عظمت کا قائل ہو گیا تھا اور فیصلہ کر چکا تھا کہ ایسے شخص کا دامن ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔چاہے وہ مجھے اپنے قابل سمجھتا ہے یا نہیں۔
جیسے ہی لائٹ آن ہوئی میں اُٹھا اور جا کر حضرت جیؒ کے پاؤ ں پر گر گیا۔ میں بے اختیار گڑگڑا کر روتا رہا جب رورو کر میر ے دل کا غبار ہلکا ہو گیا توحضرت جی ؒ نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ بیٹا احساس زیاں آدمی کے پاس بڑی متاع ہے۔ آدمی کو گناہ کا احساس جب بھی ہو جائے تو وہ واپس آسکتا ہے اور اگر احساس ہی مر جائے تو پھر یہ زندگی بے کار ہے۔ زندگی کا جو وقت باقی رہ گیا ہے اس کو اللہ کی یاد میں صرف کرو۔ اہل اللہ میں شامل ہوجاؤ۔ نماز کی پاپندی کرو، حلال و حرام کے فرق کو پہچانو۔ پھر بڑی دیر تک مجلس میں دین کی باتیں ہوتی رہیں۔ میں جب رات کو دیر سے گھر پہنچا تو بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔ کھانا مانگا تو بیوی نے کہا کہ جن کے پاس گئے تھے کھانا بھی انہی سے مانگو۔ چنانچہ اس رات کو بھوکاہی سونا پڑا۔ اگلے دو دن گھریلوناچاکی کی وجہ سے حضرت جیؒ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکا۔ تیسرے دن حضرت جیؒ ٹانگے میں بیٹھ کر ائیر فورس کے ایک ساتھی سارجنٹ محمد اشرف کے گھر تشریف لے جارہے تھے۔میں اپنے لان میں بیٹھا پھول کی کیاریوں کی گوڈی کر رہا تھا کہ مجھے احسن بیگ نے کہا کہ حضرت جی ؒ کے پیچھے پیچھے آجاؤ۔میں سائیکل پکڑ کر حضرت جیؒ کے پیچھے پیچھے سارجنٹ محمد اشرف کے گھر پہنچ گیا۔یہ میرا حضرت جیؒ کے ساتھ دوسرا ذکر تھا۔
اویسیہ سلسلے سے منسلک ہونے کے بعد میرے دونوں بڑے بھائی بھی میرے ساتھ شامل ہو گئے۔ میرے چچا حکیم محمد حسین کے تین بیٹے، میرے سُسر اور خاندان کے دوسرے چند افراد کے سلسلہ میں آجانے کے بعد واں بھچراں میں جماعت کی صورت پیدا ہو گئی۔ چچا محمد حسین جب بھی ملتے مجھے لاحول ولا قوۃ پڑھنے کی ہدایت کرتے۔ انہیں یقین تھا کہ میں کسی شیطانی چکر میں پڑ گیا ہوں۔ایک سال تک انہوں نے ہمیں بغور دیکھا، ایک دن وہ مجھے کہنے لگے کہ سمجھ میں نہیں آتا تم لوگ صحیح ہو یا غلط مگر میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مولانا اللہ یار خان ؒکے ساتھ لگ کر میرے بیٹے نیک ہو گئے ہیں۔ پہلے تو ان کو نماز کی توفیق بھی نہیں ہوتی تھی اب انہوں نے داڑھیاں رکھ لی ہیں۔ بُرے کام چھوڑ دئیے ہیں اور تہجد گزار ہو گئے ہیں۔ کہنے لگے مجھے بھی تم لطائف کراؤ۔میں نے دو تین دن ان کو لطائف کرائے اس کے کچھ دنوں بعد مفتی غلام صمدانی واں بھچراں آئے اور حکیم چچا کو مسجد تک منازل کرا گئے۔ میرے بڑے بھائی غلام حسین نے مجھے لکھا کہ غضب ہو گیا۔ چچا تو ابھی متذبذب تھے اور مفتی غلام صمدانی ان کو مسجد تک منازل کرا گئے ہیں۔ میں نے ان کو لکھا کہ ان کے کرائے ہوئے منازل میں شک مت کرو۔ تم ان کا مسجد تک خیال رکھا کرو۔ حضرت جیؒ نے چچا حکیم کو لکھا کہ وہ منارہ کے دورہ پر ضرور آئیں۔ وہ حضرت جیؒ کے حکم کے مطابق بادل نخواستہ منارہ تو چلے گئے مگر سوچتے یہی رہتے تھے کہ معلوم نہیں ان کو منازل ہوئے بھی ہیں یا نہیں۔
ایک دن مولوی محمد سلیمان جماعت کو معمول کر ا رہے تھے یہ جب سیر کعبہ پر پہنچے تو ان پر رقت طاری ہو گئی۔ روتے رہے اور غلاف کعبہ کو پکڑ کر دعا کرتے رہے۔ جماعت تو مسجدنبوی ؐتک پہنچ چکی تھی، مولوی محمد سلیمان نے مفتی غلام صمدانی سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی مقبول دعا دیکھی ہے؟ اگر دیکھنا ہے تو حکیم محمد حسین کی طرف دیکھو جو ابھی تک غلاف کعبہ کو پکڑ کر رو رو کر دعا کر رہے تھے اور ان کی دعا عرشِ معلٰی سے ٹکرا رہی تھی۔ چچا نے مجھے بتایا کہ جب میں نے اپنی حالت کے متعلق مولوی محمد سلیمان کی زبانی سنا تو حیران رہ گیا کہ ان کو کیسے پتہ چل گیا۔حالانکہ ساری جماعت تو مسجد نبوی ؐ پہنچی ہوئی تھی۔ اس کے بعد چچا کا دل بھی مطمئن ہو گیا اور وہ مکمل یقین کے ساتھ حضرت جیؒ کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ میں خود شروع شروع میں کبھی حضرت جیؒ کی روحانی قوت کے متعلق سوچ میں پڑ جاتا تھا۔ اس بارے میں میں نے سابقہ شیخ حضرت مولانا خان محمد (سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ کندیاں)کی خدمت میں خط ارسال کیا جس میں دلائل السلوک کے چند اقتباسات اور حضرت جیؒ کے کچھ حالات و واقعات جو میری نظر سے گزر چکے تھے ان کی خدمت میں لکھے۔ انہوں نے جواب میں مجھے لکھا کہ ”عزیزم! مولانا اللہ یار خان سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے شیخ ہیں ان کے متعلق کوئی اویسیہ سلسلے کا آدمی ہی کلام کر سکتا ہے۔ تم بہر حال ہمارے بتائے ہوئے و ظائف باقاعدگی سے کرتے رہو“۔
اپریل 1970ء کے اواخر میں حضرت جیؒ کے ساتھ شریک ِ سفر ہوا۔ یہ سفر میں نے راولپنڈی سے کراچی تک کیا۔ محمد یوسف اور بشیر حضرت جیؒ کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ خدمت کی ڈیوٹی میرے ذمہ تھی۔ عصر کی نماز کے لئے وضو کرنے کی غرض سے حضرت جیؒ گاڑی کی لیٹرین میں گئے تو میں یوسف صاحب کے پاس آبیٹھا اور ان سے پوچھا کہ میرے والدین فوت ہو چکے ہیں۔ آپ مجھے ان کے برزخ کے حالات سے آگاہ کریں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ماں تو نجات میں ہے مگر باپ گرفت میں ہے۔ مجھے یقین نہیں آیا کیونکہ والد صاحب بہت ہی نیک شخص تھے۔ پھر میں اٹھ کر لیٹرین کی طرف چلا گیا۔ حضرت جیؒ جب باہر نکلے تو مجھے بتایا کہ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئے شیطان لعین نے پیچھے سے گندا گوشت کا ٹکڑا ان پر پھینک دیا جس سے قمیض ناپاک ہو گئی۔ دھونے کی کوشش تو بہت کی ہے مگر داغ نہیں گیا۔ نماز سے فارغ ہوکر جب حضرت جیؒ واپس اپنی سیٹ پر آ بیٹھے تو میں نے اپنے والدین کی برزخی حالت کے متعلق سوال کیا۔ حضرت جیؒ کھڑکی سے باہر تھوڑی دیر کے لئے ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے پھر فرمانے لگے کہ ماں تو ٹھیک ہے مگر والد عذاب میں ہے۔ اب میرے لئے مان لینے کے علاوہ چارہ نہیں تھا۔ محمد یوسف نے حضرت جیؒ سے درخواست کی کہ دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ ان کے والد کا عذاب دور فرمائے۔ حضرت جی ؒ نے دعا فرمائی اور میرے والد کا قبر کا عذاب ختم ہو گیا۔
اس کی تصدیق کچھ دنوں بعد رسالپور میں کیپٹن زین العابدین نے کی۔ وہ میرے گھر میں بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ میرے والد کی برزخی حالت کے متعلق مجھے بتائے۔ وہ کشف کی باتیں بتانے سے اکثر احتراز کرتے تھے۔ بڑی مشکل سے ان کو راضی کیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ چونکہ میرے والد کی قبر سے واقف نہیں تھے لہذا میں ان کی رہنمائی کروں۔ چنانچہ میں نے ان کو کہا کہ چلو میرے والد کی قبر پر۔ میں اس کا امتحان لینے کے لیے گھنڈی (کندیاں) کے قبرستان میں ایک قبر پر خیال کر کے بیٹھ گیا۔ اس نے جب صاحبِ قبر کو دیکھا تو آنکھیں کھول دیں کہ صاحبِ قبر تو کہتاہے کہ میں اس کا والد نہیں۔ میں نے اس کا حلیہ پوچھا تو انہوں نے صحیح بتایا۔ پھر میں نے اس سے پوچھا کہ دیکھو اس قبرستان میں کوئی پانچ لطائف والا آدمی ہے تو اس نے مجھے بتایا کہ ہاں ایک معمر بزرگ ہے جس کے پانچ لطائف ہیں۔ (یہ مولانا احمد خان ؒ خانقاہ سراجیہ کندیاں کا مرید تھا) میں نے کہا کہ اس سے پوچھو کیا یہ مجھے جانتا ہے؟ اس کے جواب میں اس بزرگ نے میری بغل پر ہاتھ لگایا۔ زین العابدین کہنے لگے مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں سات سال کا تھا کہ میری اماں اس بزرگ کے پاس دم کرانے لے آئی تھی۔ اس نے کچھ پڑھ کر میری بغل میں ہاتھ پھیرا تھا۔ اس کے بعد وہ فوت ہو گیا۔ یہی اس کی مجھ سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ اس واقعہ سے حضرت جیؒ کی یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ صاحبِ قبر کی کسی کے ساتھ ایک ملاقات بھی ہوئی ہو تو وہ اس کو یاد رکھتا ہے۔ پھر میں نے زین العابدین سے پوچھاکہ کیا کوئی قلب والے بھی ادھر ہیں تو وہ کہنے لگے کہ سات شخص ایک قطار میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ آخری آدمی نے اپنا منہ ڈھانپا ہو ا ہے۔ میں نے اس کو بتایا کہ یہ علماء کا قریشی خاندان ہے۔ اس آخری آدمی کو میں جانتا ہوں۔ یہ گھنڈوالا مولوی مشہور تھا۔ مسجد کے علاوہ کسی جگہ اپنا گھُنڈ نہیں کھولتا تھا اور میں بچپن میں اس کے پیچھے نماز پڑھ چکا ہوں۔
اس کے بعد میں اس کو اپنے والد کی قبر (وجھارہ۔ واں بھچراں) پر لے گیا۔ وہ مجھے کہنے لگا کہ یہاں تو تمہاری ماں کی قبر بھی ہے۔ میں نے پوچھا کہ تمہیں کیسے معلوم ہو گیا؟وہ کہنے لگا کہ میں نے آپ کے ماں باپ کو ایک ساتھ دیکھا ہے تو تمہارے والد نے مجھے بتایا کہ یہ غلام محمد کی ماں ہے۔ میں حیران ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسا زبردست کشفِ قبور اس شخص کو عطا کیا ہے۔ سینکڑوں میل دور بیٹھ کر سب کچھ صحیح بتا رہا ہے۔ پھر میں زین العابدین کو مولانا حسین علیؒ کی قبر پر لے آیا اور ان سے پوچھا کہ حضرت آپ کیسے شاگر د اور جانشین پیچھے چھوڑ آئے ہیں؟ زین العابدین نے مجھے بتایا کہ مولانا حسین علی ؒ نے اس سوال پر گردن جھکالی ہے۔پھر میں زین العابدین کو خانقاہ سراجیہ حضرت مولانا احمد خانؒ کے پاس لے گیا۔ زین العابدین نے مجھے بتایا کہ یہ شخص فنافی الرسول ہے۔ مولانا عبداللہ کے منازل ان سے نیچے ہیں۔ مولانا عبداللہ نے زین العابدین کو کہا کہ اپنے شیخ المکرم کو کہو کہ ہمارے جانشین خان محمد کو بھی سلوک طے کرائیں۔
اکتوبر 1970ء میں حضرت جیؒ میرے ہاں رسالپور تشریف لائے۔ آتے وقت راستے میں زین العابدین کی کار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا جس میں حضرت جی ؒ زخمی ہو گئے۔ اسی وجہ سے دس کی بجائے سولہ روز قیام کیا۔ وضو نہیں فرما سکتے تھے،تیمم کرتے رہے۔ جن اینٹوں سے تیمّم فرماتے وہ میرے پاس محفوظ ہیں اور میں نے وصیت کی ہے کہ یہ اینٹیں میری قبر میں لگائی جائیں۔ اس قیام کے دوران ایک روز مفتی غلام صمدانی بشیر کے ساتھ رسالپور سے نوشہرہ گئے۔ جب واپس آئے تو بشیر نے حضرت جیؒ سے درخواست کی کہ دوران سفر مفتی غلام صمدانی نے اس زور سے چیخ ماری کہ سب لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اب بتاتے نہیں کہ بات کیا ہے۔ حضرت جیؒ نے مفتی غلام صمدانی سے کہا کہ آپ ان کو تمام واقعہ بتا دیں۔ مفتی غلام صمدانی نے بتایا کہ جب وہ بس میں سوار ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ بس میں سب سے آگے جو گول گول قسم کی چیز ہوتی ہے جس کے پیچھے ڈرائیور بیٹھتا ہے اس کے ساتھ ایک بندر چمٹا ہوا ہے۔ کبھی اس کو دائیں گھماتا ہے اور کبھی بائیں۔ ڈرائیور کی یہ روحانی شکل دیکھ کر میری چیخ نکل گئی۔
حضرت جیؒ کی اس مجلس میں پروفیسر محمد اسلم بھی موجود تھے۔ پرفیسر محمد اسلم کو ر آف انجینئیرزکے مانے ہوئے ریاضی کے استاد تھے۔اور ان کی Third Dimension تھیوری بہت مشہور تھی جس سے وہ اللہ کی ہستی اور فرشتوں کے وجود کو ثابت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے حضرت جیؒ سے سوال کیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ نیل آرمسٹرانگ چاند پر پہنچ گیا ہے؟ حضرت جیؒ نے فرمایا کہ چلو اسی آدمی سے پوچھ لیتے ہیں۔ جو سٹیرنگ کو گول گول کہتا ہے۔پھر حضرت جیؒ نے مفتی غلام صمدانی سے کہا کہ وہ ان کے قلب پر خیال کرے۔ اور انوار جس جگہ جا رہے ہیں اس جگہ کی تفصیل بتانا شروع کر دے۔مفتی غلام صمدانی نے نیل آمسٹرانگ کا پورا سفر اور وہ جگہ جہاں وہ پہنچے تھے پوری تفصیل سے دیکھ کر بتائے۔ پروفیسر محمد اسلم حیر ان تھے کہ ایک کم تعلیم یافتہ آدمی ایسی ایسی تفصیلات بتا رہا تھا جو ہوا باز نے خود بھی واپس آکر بیان نہیں کی تھیں۔
اس واقعہ کے بعد پروفیسر محمد اسلم حضرت جیؒ کا اتنا گرویدہ ہوا کہ وہ ہم سب کو اپنے گھر لے گیا اور اپنے سب بچوں کو حضرت جیؒ کی خدمت میں لے آیا۔ کہ آپ ان کو بیعت کریں۔ حضرت جیؒ نے ان کو بتایا کہ میں روایتی پیر نہیں ہوں۔ میں ایک روحانی معلم ہوں ظاہری بیعت پر یقین نہیں رکھتا۔ اپنے شاگردوں کی روحانی تربیت کر کے دربارِنبویؐ میں روحانی بیعت کے لئے حضورنبی کریمﷺ کے دست اقدس پر بیعت کراتا ہوں۔پھر جب چائے آئی تو اس کے ساتھ کھانے کی کچھ چیزیں بھی تھی۔ حضرت جیؒ نے صرف ایک چیز کھائی اور فرمایا کہ باقی بازار سے لائی گئی ہیں لہذا میں نہیں کھاتا۔ پروفیسر محمد اسلم نے عرض کی کہ یہ چیز میری بیٹی نے بنائی ہے جو پابند صلوٰۃ ہے باقی چیزیں واقعی بازار سے منگائی گئی ہیں۔
رسالپور میں حضرت جیؒ کے اسی قیام کے دوران ایک عجیب بات واضح ہوئی۔ ایک روز میں مولوی محمد سلیمان کے ساتھ کھڑا تھا۔وہ وضو کر رہے تھے۔ گھر کی پچھلی جانب آٹھ سروینٹ کوارٹر تھے ان میں سے دو کوارٹرز میں نے ایک غریب ٹانگے والے بوڑھے کو چوان کو دے رکھے تھے۔ اس کی بیوی اور بیٹی میرے گھر میں کام کرتی تھیں۔ مولوی محمد سلیمان کی نظر جب غیر آباد کوارٹروں پر پڑی تو کہنے لگے ”دُردُر۔ یہ کیا بلائیں پال رکھی ہیں“۔کہنے لگے کہ ایک جن کھڑکی میں سے سر نکال کر ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر یہ بھاگ کر کوچوان کی گھوڑی میں گھس گیا۔ وہ لیٹ گئی۔ میرا بیٹ مین محمد ذاکر ہمارے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ کہنے لگا جب سے حضرت جیؒ یہاں تشریف لائے ہیں کوارٹر میں موجود تما م افراد اور گھوڑی گرفت میں ہیں۔ مولو ی سلیمان نے ہمیں بتایا کہ حضرت جیؒ کے قلب کے انوارات پورے محلے کو منور کر دیتے ہیں۔ زمین، مکانات، درخت وغیرہ سب بے حد منور ہو جاتے ہیں۔ جہاں جنات کیلئے رہنا مشکل ہو جاتا ہے لہذا یہ جاندار اشیاء یعنی انسانوں اور حیوانوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے جنات نے آپ کے کوارٹروں کے بے دین افراد اور گھوڑی میں پناہ لے رکھی ہے۔ پھر جیسے ہی حضرت جیؒ میرے گھر سے تشریف لے گئے وہ سب تندرست ہو گئے۔
حضرت جیؒ جب پہلی بار حج کے لئے تشریف لے گئے تو میں بھی کراچی تک ساتھ گیا۔ جب حضرت جیؒ حج کر کے واپس لوٹے تو تمام اکابر ساتھی کراچی میں موجود تھے۔ ائیر پورٹ سے جب حضر ت جیؒ باہر آئے تو آپ کے بدن پر رنگدار کھدر کے کپڑے تھے۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اگر حضرت جیؒ یہ خلعت مجھے عطاء کریں تو میر اکام بن جائے گا۔مسجد طوبیٰ کے قریب نیوی کوارٹرز میں حضرت جیؒ کا قیام تھا۔ تمام اکابر ساتھیوں نے ان کپڑوں کی خواہش حضرت جیؒ کے سامنے ظاہر کی مگر وہ خاموش رہے۔ رومال بھی بدل لیا۔ تسبیح بھی دے دی مگر کپڑے کسی کو نہیں دئیے۔ مجھے اپنی خواہش ظاہر کرنے کی ہمت ہی نہیں پڑی کیونکہ میں بالکل مبتدی تھا۔واپسی پر چکوال کے ساتھیوں نے حضرت جیؒ کے کپڑے غائب کر دئیے کہ کہیں حضرت جی اپنے یہ کپڑے بدل کر کسی اور کونہ دے دیں۔ جب جہلم کے ریلوے سٹیشن پر اترے تو حافظ غلام قادری نے ایک قریبی مسجد میں عارضی قیام و طعام کا بندوبست کیاہوا تھا۔سامان وغیرہ رکھ کر جب ساتھی باہر نکلے تو مسجد میں صرف حضرت جیؒ اور میں رہ گئے۔ حضرت جیؒ نے مجھے فرمایا کہ کوئی دھوتی لے آؤ۔ میں کسی ساتھی کی دھوتی اٹھا کر لے آیا اور حضرت جی کو دے دی۔ حضرت جیؒ نے دھوتی باندھ لی اور شلوار قمیض اتار کر مجھے دے دی اور فرمایا کہ ان کی خواہش سب سے پہلے ائیر پورٹ پر تم نے کی تھی۔ لہذا یہ میں تمہیں دیتا ہوں۔ ساتھی جب تھوڑی دیر بعد واپس آئے تو دیکھا کہ حضرت جیؒ صرف دھوتی باندھ کر تشریف فرما ہیں۔ فوراً کہیں سے نکال کر حضرت جی کے کپڑے لے آئے۔ (حضرت جیؒ کے یہ کپڑے میرے پاس محفوظ ہیں اور مجھے اپنے شیخ المکرم کی عطا اور کشفِ قلوب کی یاد دلاتے رہتے ہیں)۔
سلامت پورہ گلی نمبر 6مکان نمبر4مولانا فضل حسین کے گھر کا پتہ تھا۔ مولانا فضل حسین کے پاس حضر ت مولانا فضل علی قریشیؒ کا خرقہ تھا۔ مولانا فضل علی قریشی ؒ مولانا حسین علیؒ (واں بھچراں) اور مولانا احمدخان ؒ(خانقاہ سراجیہ کندیاں کے بانی شیخ المکرم) کو ایک ساتھ خرقہ ملا تھا۔ ان تینوں اصحاب کا تعلق نقشبندیہ مجددیہ سلسلے سے تھا۔ مولانا فضل حسین لاہور کے مستند پیر تھے ان کے مریدین کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ نہایت خوشحال تھے۔ گاڑی تھی، مکان تھا، ٹرانسپورٹ چلتی تھی۔ مولانا فضل حسین نے حضرت جیؒ کو خط لکھا کہ ان کے شیخ نے ان کو حقیقت صلوٰۃ تک منازل کرائے تھے۔اب وہ حیات نہیں لہذا مزید سلوک طے کرنے کیلئے آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ حضرت جیؒ نے ان کو لکھا وہ کراچی جانے کے لئے لاہور آئیں گے تو آپ مجھے مل لیں۔ مولانا فضل حسین اپنے تمام مریدین کے ساتھ لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچے اور حضرت جیؒ کو اپنے گھر سلامت پورہ لے گئے۔ حضرت کے ساتھ گفتگو کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ انہوں نے تو مخلوق کو اب تک دھوکے میں رکھا۔ انکی تو روحانی بیعت ہی نہیں لہذا انہوں نے برسرِ عام اعلان کیا کہ اب تک وہ خود کامل صوفی نہیں تھے اور جو لوگ ان کے ساتھ رہے وہ بھی دھوکے میں رہے۔ لہذا آج کے بعد حضرت مولانا اللہ یار خان ان کے پیرو مرشدہیں جس کا جی چاہے ہمارے ساتھ رہے جس کا جی چاہے چھوڑ کر چلا جائے۔ یہ اعلان سننے کے بعد مریدین کی اکثریت چھوڑ کر چلی گئی۔
۔ 1971ء کی جنگ کے دوران میں واہگہ سیکٹر میں تعینات تھا۔ ہر ہفتے باقاعدہ مولانا فضل حسین کے پاس ذکر کے لئے حاضری دیتا۔ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ جب جنگ 1971ء کے فوراً بعد حاضر ہو ا تو شام کو مولانا فضل حسین سائیکل پر گھر واپس آئے۔ مغرب کے بعد ذکر کرایا اور عشاء کے بعد کچھ دیر بات چیت کرنے کے بعد لیٹ گئے۔ کھانے وغیرہ کا کچھ نہیں پوچھا۔ علی الصبح اٹھ کر نوافل کے بعد ذکر کرایا اور فجر کی نماز سے جب فارغ ہوئے تو مجھے کہنے لگے کہ افسوس ہے کہ میں آپ لوگوں کی کچھ خدمت نہیں کرسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ گھر میں دو دن سے فاقہ ہے اور کھانے کو کچھ نہیں۔پھر انہوں نے سارا واقعہ اویسیہ سلسلے میں آنے کا اور یہاں تک ان کی حالت پہنچنے کا مجھے سنایا۔ ا ب ان کی حالت یہ تھی کہ ایک ورکشاپ میں جو سلامت پورہ سے تیرہ میل دور تھی ملازمت کرتے تھے۔ سائیکل پر تیرہ میل جاتے اور سائیکل پر واپس آتے۔ یہ حالت سن کر میں حیران رہ گیا۔ میں سیدھا یونٹ پہنچا، گاڑی میں خوردنوش کی چیزیں رکھوائیں اور واپس سلامت پورہ آگیا مجھے دیکھ کر مولانا فضل حسین خوش نہیں ہوئے، کہنے لگے میں نے اپنے حالات آپ کو اس لئے تو نہیں بتائے تھے۔ میں نے کہا کہ حضرت اس دفعہ قبول کر لیں آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ اس کے بعد جب میں نے مولانا فضل حسین کے یہ حالات حضرت جی ؒ کو بتائے تو وہ فرمانے لگے کہ ایسا مخلص شخص پیروں میں مَیں نے نہیں دیکھا۔ اس شخص نے اپنا سب کچھ مجھ پر قربان کر دیا۔
پھر مارچ 1972ء میں ڈاکٹر ریاض کے ہاں گلبرگ میں حضرت جی کا قیام تھا۔ مولانا فضل حسین آکر ملے تو حضرت جی نے خیر خیریت دریافت کی تو مولانا فضل حسین رو پڑے۔ کہنے لگے اور تو کسی چیز کے جانے کا دکھ نہیں مگر ڈر لگتا ہے کہ کہیں آپ کا تعلق ہاتھ سے نہ جاتا رہے۔ حضرت جیؒ نے تسلی دی کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ جس کی جتنی ہمت ہوتی ہے اسی قدر اس پر اللہ تعالیٰ بوجھ ڈالتے ہیں۔ پھر اللہ تعا لیٰ نے ان کے دن بدلے وہ ابو ظہبی چلے گئے، بچوں کو بھی وہیں بلا لیا۔ جب آخری دنوں میں بیمار پڑے تو کمپنی نے پیش کش کی ان کا علاج جس ملک سے وہ چاہیں کرایا جا سکتا ہے۔ مولانا فضل حسین نے پاکستان آنے کو ترجیح دی اور اپنے شیخ المکرم کے قدموں میں اپنی جان اللہ کے سپرد کر دی۔
۔ 29دسمبر 1972ء کو عشاء کے بعد مولانا شمس الحق افغانی کے پاس بہاولپور میں ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوا۔ میں وردی میں تھا۔ چولستان سے ڈیڑھ سو میل کا سفر کر کے ان کے پاس حاضر ہوا تھا۔ پہلے تو انہوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ جنرل اقبال کا گھر ساتھ والا ہے۔ میں نے کہا کہ حضرت میں انکو نہیں آپ کو ملنے آیا ہوں۔انہوں نے مجھے بٹھایا اور وجہ پوچھی۔ میں نے انکی خدمت میں عرض کی کہ میں تو ان کی خدمت میں سلوک سیکھنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔ چاروں سلاسل کے مشائخ کی کتابیں میں پڑھ چکا ہوں۔ منازلِ سلوک کا مطالعہ کیا ہے۔ راہ سلوک پر چلانے والے کی تلاش میں سر گرادان پھر رہا ہوں آپ کے پاس بڑی امید لے کر حاضر ہوا ہوں۔ آپ حضرت ضرور میری رہنمائی فرمائیں۔ مولانا افغانی نے کچھ دیر کے توقف کے بعد فرمایا کہ آپ چالیس دن مسلسل دو ہزار مرتبہ استغفار، دو ہزار مرتبہ درود شریف اور تین ہزار مرتبہ نفی اثبات کا وظیفہ کریں۔ اگر کسی دن ناغہ ہو جائے تو اس کے بعد سے چالیس دن کا شمار کریں۔ چالیس دن کے بعد مجھے بذریعہ خط یا خود حاضر ہو کر قلبی کیفیت بیان کریں، اگلا سبق اس کے بعد شروع ہوگا۔ میں نے واپس آکرحضر ت کو سارا واقعہ بتایا۔ حضرت جی فرمانے لگے کہ انہوں نے آپ کو ٹالا ہے۔ یہ وظائف تو انہوں نے اپنا بھر م قائم رکھنے کے لئے بتائے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہر روز یہ وظیفہ کرنے کے لئے پانچ گھنٹے چاہئیں اور وردی والے آدمی کو پانچ گھنٹے فرصت کب مل سکتی ہے۔ تم ایک دن وظیفہ کر و گے دو دن کرو گے پھر ناغہ ہو جائے گا۔ پھر سوچتے رہو گے کہ یہ معمولی سا عام وظیفہ میں نہیں کر سکا، شرمندگی کی وجہ سے اول تو ان کے پاس جاؤ گے نہیں اور چلے بھی گئے تو دوربارہ سلوک کا نام نہیں لو گے۔ ان کی شیخیت بھی قائم رہے گی اور سلوک بھی سکھانا نہیں پڑے گا۔ کس کے پاس وظائف کے لئے وقت ہے اسی لئے جو آتا ہے ہم تو لطائف سے ہی شروع کر ا دیتے ہیں۔ اگر استعداد ہوئی تو چل پڑے گا نہیں تو خود بخود چھوڑ جائے گا
۔ میرا ایک دوست بچپن سے نیکو کار آدمی تھا۔ اس نے جنرل اکرم کی لکھی ہوئی کتاب ”سیف اللہ“ (Sword of Allah)پڑھی۔ اس کے بعد وہ زنا کی طرف راغب ہو گیا۔ میں حضرت جیؒ کے ساتھ کراچی میں تھا تو میں نے یہ کتاب بازار سے خریدی۔ میں اس الجھن میں تھا کہ مصنف نے اس موضوع کا انتخاب کیوں کیا۔ حالانکہ وہ شیعہ مسلک کا آدمی ہے اور اس کے نزدیک تو ذوالفقار حضرت علیؓ ہیں۔ پھر حضرت خالد ؓ کو اللہ کی تلوار کے طور پر موضوع بنا کر کیوں کتاب لکھی؟ کتاب پڑھی تو معلوم ہوا کہ یہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ کتاب میں حضرت خالدؓ اور حضرت عمرؓ کی جا بجا کردار کشی کی گئی ہے اور ہم سنیوں کو بتایا گیا ہے کہ یہ ہیں تمہارے ہیروز کے اصلی روپ۔ایک جنگ و جدل کا ہیرو اور دوسرا عدل کا۔ میں نے جب حضرت جیؒکو اس کتاب کے متعلق بتایا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کتاب کا تفصیل سے مطالعہ کر و اور قابل اعتراض صفحات کی نشاندہی کرو۔ اس کا رد لکھیں گے۔ ان کے حکم کی تعمیل میں مَیں کوئٹہ میں قاری یار محمد کی مسجد میں بیٹھا یہ کتاب پڑھ رہا تھا۔ حجرے میں حضرت جیؒ تشریف رکھتے تھے۔ یہ کوئی اشراق کے بعد کا وقت تھا۔ ایک صاحب مسجد میں داخل ہوئے جب میرے پاس آئے اور مجھے انگریزی کی کتاب پڑھتے دیکھا تو آگ بگولا ہو گئے۔ کہنے لگے تم مولویوں کو کیا ہو گیا ہے۔ لوگوں کو قرآن کا وعظ کرتے ہو اور خود مسجدوں میں انگریزیاں پڑھتے ہو۔ بند کرو یہ ناٹک۔ میں نے کتاب پڑھنا بند کر دی اور وہ جا کر حضرت جیؒ کی مجلس میں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد جب میں اند ر پہنچا تو اس نے حضر ت جیؒ سے شکایت کی کہ یہ مولوی مسجد میں انگریزی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے۔ حضرت جیؒ نے ان کو میرا تعارف کرایا اور ساری بات بتائی تو وہ مطمئن ہو گئے۔
۔ 1974ء کے جن دنوں میں منارہ کا سالانہ اجتماع تھا میں اس وقت کوئٹہ انفنٹری سکول میں کمپنی کمانڈر کورس کر رہا تھا۔ چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے اجتماع میں شامل نہ ہو سکا۔ اجتماع کے آخری ایام میں میں نے حضرت جیؒ کو ایک عریضہ تحریر کیا جس میں میں نے اپنی محرومی کا اظہار کیا اور دعا اور توجہ خاص کی درخواست کی۔ جواب میں حضرت جیؒ نے بہت ہی حیران کن خبر سنا دی کہ تمہیں سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے نو منتخب مجازوں میں جگہ مل گئی ہے۔ اب تم صاحبِ مجاز ہو اور صاحبِ منصب بھی۔ پھر جب میں تعمیل حکم میں خرقہ لینے کے لئے چکڑا لہ حاضر ہوا تو حضرت جی ؒ نے بہت شفقت فرمائی اور بتایا کہ مجازوں کی ابتدائی فہرست جو نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوئی اس میں تمہارا نام نہیں تھا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اس فہرست میں سے کچھ نام کاٹ دئیے اور تمہار ا نام لکھ دیا۔ اس کے بعد سے حضرت جی قبلہ عالم مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔
ملتان غوث بہاؤالدین ذکریاؒ کے نام کی وجہ سے مشہورہے۔ حضرت غوث بہاؤالدین سہرووردی سلسلہ کے بزرگ ہیں اور شیخ شہاب الدین سہروردی کے شاگرد ہیں۔ ہم نے بھی اپنا جمعرات کا معمول ان کے ہاں رکھا۔اس کے علاوہ بھی اکثر و بیشتر میں اور حاجی محمد اسلم کنبوہ حضرت غوث صاحب کے مزار پر حاضری دیتے۔اوائل 1976ء تک حضرت جیؒ نے ملتان کے ریلوے سٹیشن سے گزر جانے پر ہی اکتفا ء کیا۔ مجھے ملتان پہنچے ایک سال ہو گیا تھا جب بھی حضرت غوث صاحب کے ہاں حاضری ہوتی وہ حضرت جیؒ کے ملتان آنے کا مطالبہ کرتے۔ میں نے دبے لفظوں میں حضرت جیؒ کی خدمت میں درخواست پیش کی تو انہوں نے قبول کر لی اور فرمایا کہ واقعی ان کا شکوہ صحیح ہے۔ پھر حضرت جیؒ ملتان تشریف لے آئے۔ حضرت جی نے غوث بہاؤلداین ذکریا کے مزار پر حاضری کا پرگرام بنایا۔ وہاں پر موجود جماعت بھی ساتھ گئی۔ غوث بہاؤالدین زکریاؒ کو بالا منازل کرائے گئے۔ اس کے بعد جب حضرت جیؒ واپس ہو رہے تھے تو کسی ساتھی نے حضرت جیؒ سے کہا کہ حضرت رکن عالم بھی ملاقات کی درخواست کر رہے ہیں۔حضرت جیؒ مسکرا دئیے اور کہا کہ چلو پھر کچھ دیر وہاں مراقبہ فرمایا۔
۔ 1971ء کے جنگی قیدیوں کی واپسی کے بعد جماعت میں بہت اضافہ ہو گیا۔ مولوی محمد سلیمان نے معمولات میں دو چیزوں کا اپنی طرف سے اضافہ کر دیا۔ عصر کے بعد ذکر جہر اور مراقبہ استحضار۔ چونکہ حضرت جیؒ نے کبھی یہ نہیں کرائے تھے اس لئے مجھے بہت کوفت ہوتی تھی مگر میں ان کے گروہ میں بیٹھا تو رہتا مگر کڑھتا رہتا۔ مولوی محمد سلیمان نے قریب قریب سب ذکر کرانے والوں کو ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ عصر کے وقت ذکر جہر کرایا کریں۔ ملتان میں میں یہ ذکر نہیں کراتا تھا۔ اس بات کا علم جب مولوی محمد سلیمان کو ہوا تو وہ اور بشیر ایک دن منارے کے اجتماع کے دوران مجھے ایک طرف لے گئے۔ اور سختی سے ڈانٹا۔کہنے لگے تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو۔ تمہاری مجازیت ہم ایک منٹ میں ختم کرا سکتے ہیں۔ لہذا آج کے بعد ترقی منازل کیلئے عصر کے وقت کا ذکر جہر اور مراقبہ استحضار باقاعدگی سے کیا کرو۔ میں خاموش ہو گیا۔ دو سال تک مولوی محمد سلیمان مجھ سے ناراض رہے۔ مجھے ان کی طرف سے ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں واقعی حضرت جیؒ کو کہہ کر مجھے جماعت سے نہ نکلوادیں۔ حضرت جی ؒ حاجی الطاف کے گھر قیام پذیر تھے۔ کھانا کھانے کے لئے جب سب لوگ باہر چلے گئے تو میں نے حضرت جیؒ کے پاؤ پکڑ لئے اور رونے لگا۔ حضرت جی ؒ نے مجھ سے پوچھا کیا بات ہے؟ جواب میں میں نے مولوی سلیمان کا سارا واقعہ بتایا اور عرض کی کہ وہ مجھے جماعت سے نکلوانے پر تلے ہوئے ہیں۔ میں نے حضرت جیؒ سے درخواست کی کہ وہ حجت کے طور پر ایک دفعہ ذکر جہر اور مراقبہ استحضار کرا دیں۔ پھر ہم اس کو اپنے معمولات کا حصہ بنا لیں گے۔ حضرت جی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ اذکار آج تک نہیں کئے؟ میں نے جواب دیا کہ میرے شیخ نے جواذکار نہ کرائے ہوں میں دوسروں کے کہنے سے کیسے کر سکتا ہوں۔ حضرت جیؒ بہت خوش ہوئے۔ فرمانے لگے وہ تم کو کیا نکالے گا وہ تو خود جماعت سے نکل گیا ہے۔ پھر انہوں نے اپنے سرہانے کے نیچے سے کتاب نکال کر مجھے دی اور کہا کہ اس نے تو دلائل السلوک کے مقابلے میں کتاب بھی لکھ دی ہے۔ حیرانی ہے ایسے شخص کی عقل پر۔
مارچ1981ء میں حضرت جیؒ جب ملتان تشریف لائے تو ڈنر کے لئے بریگیڈئیر خادم حسین اور چائے کے لئے میجر جنرل حمزہ کی دعوت کو بھی قبول فرمایا۔یہ دونوں افسر آرمی میں اپنی شرافت اور نیکی کی وجہ سے منفرد مقام رکھتے تھے۔82ء میں میری پوسٹنگ نادرن ایریا میں ہو گئی تو جنرل حمزہ نے وہاں کے کمانڈر میجر جنر ل وڑائچ کو میرے بارے میں خط لکھا۔مئی 1982ء کے تیسرے ہفتے میں حضرت جیؒ کا گلگت کا دورہ تھا۔ 17مئی کو رات داسو میں تھی اور 18مئی کو دن کا کھانا میرے ہاں جگلوٹ میں تھا۔ مگر خلاف ِ توقع حضر ت جی داسو کو نظر انداز کر کے شام 17مئی کو ہی میرے ہاں جگلوٹ پہنچ گئے۔ سفر سے کافی نڈھال نظر آتے تھے میں نے فورا ً رسول میر کو اطلاع کی اور پھر ہم دونوں نے مل کر حضرت جی کے مختصر سے قافلے کا رات کا رہائش کا بندوبست کیا۔ اگلے روز صبح دس بجے 90لائٹ کی جیپ مجھے لینے آگئی کہ جنرل صاحب ادھر آئے ہوئے ہیں اور چائے پر تمہیں بلا رہے۔میں نے اپنے کرنل کو بتایا کہ میں جنرل صاحب سے ملنے نہیں جا سکتا کیونکہ میرے شیخ المکرم ادھر تشریف رکھتے ہیں ان کو چھوڑ کر میں کسی کے پاس نہیں جا سکتا۔ میرے کرنل نے مجھے کہا کہ خدا کے لئے میری نوکری خراب مت کرو۔ تمہاری غیر موجودگی میں تمہارے مرشد کے پاس میں بیٹھتا ہوں اور وہ اپنے بوٹ اتار کر حضرت جی کے پاس آبیٹھا۔ مگر میں نے نہ جانا تھا نہ گیا۔ جب خالی جیپ واپس وہاں پہنچی تو جنرل صاحب نے اس کا برا منایا جو بعد میں مجھے وہاں پر موجود دیگر افسران کی زبانی معلوم ہوا۔ بعد ازاں حضرت جیؒ نے مجھے بتایا کہ تمہارے کرنل کے اندر خلوص نظر نہیں آیا۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت وہ عقیدت کی وجہ سے آپ کی خدمت میں نہیں آیا تھا وہ تومحض مجھے جنرل وڑائچ کے پاس بھیجنے کی خاطر میری جگہ پر کرنے کے لئے آیا تھا۔ حصول فیض میں وہ یقین ہی نہیں رکھتا۔
۔ 1983ء کا سالانہ اجتماع منارہ 25جولائی سے لے کر 2ستمبر تک تھا۔ اس دفعہ میں نے دو ماہ کی رخصت لی اور شروع ہفتے میں دارالعرفان پہنچ گیا۔ حضرت جی اپنے بیٹے اور بھائی کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ آئے دن گھر سے قاصد دارالعرفان جا کر حضرت جی کی پریشانی میں اضافہ کر رہے تھے۔ ایک روز حضرت جی ؒ نے مجھے طلب کیا اور فرمایا کہ تم چکڑالہ چلے جاؤ اور وہاں کے دفاع کی ڈیوٹی سنبھال لو اور اپنے ساتھ چھ سات آدمی بھی لے جاؤ اور ان کو ایک ہفتے کے بعد واپس بھیج دینا۔ میں یہ ٓادمی لے کر چکڑالہ پہنچ گیا اور مرشد آبادوالی زمین پر مورچہ سنبھال لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی اور کسی کو زمین پر قبضہ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ہر ہفتے دارالعرفان سے مجھے نئی کمک پہنچتی رہی۔
جب منارہ کا اجتماع ختم ہو گیا تو حضرت جیؒ واپس چکڑالہ تشریف لے آئے اور مجھے بدستور اسی جگہ رہنے کا حکم سنایا۔ عیدالضحیٰ سے دو روز قبل حضرت جی نے مجھے جانے کی اجازت فرمائی۔ میں رخصت ہونے کے لئے حضرت جیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت جی ؒ گھر سے باہر دیوار کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ سری لنکا کا رضا قریش میرے ساتھ تھا۔ہم دونوں حضرت جی کے پاس نیچے بیٹھ گئے۔ حضر ت جی ؒ نے پوچھا جارہے ہو؟ میں نے عرض کیاجی۔ اسی طرح بیٹھے بیٹھے گھنٹے گزر گئے یہاں تک کہ دیوار کا سایہ ختم ہونے لگا اور حضرت جی کی چار پائی پر آدھی دھوپ آگئی تھی۔ گرمی کی وجہ سے تھوڑا تھوڑا پسینہ بھی آنے لگا۔اب حضرت جی نے مجھے جانے کی اجازت فرمائی اور وہ چار پائی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں حضرت سے ملا اور حضرت کے پاؤ ں پر گر پڑا۔ میں نے حضرت جی کے دونوں پاؤں پکڑ کر عرض کیا کہ حضرت زندگی کا پتہ نہیں کہ پھر ملاقات ہو کہ نہ ہو مجھ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو آپ مجھے معاف فرما دیں۔ حضرت جی آپ مجھ سے راضی رہنا۔ حضرت جی نے مجھے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور فرمانے لگے کہ تم جماعت کے ان آدمیوں میں سے ہو جن سے میرا قلبی تعلق ہے میں تم سے کیسے ناراض ہو سکتا ہوں۔اس کے بعد میں رخصت ہوا اور اللہ تعالیٰ کی شان دیکھو کہ حضرت جیؒ سے میری یہی آخری ملاقات تھی۔ مجھے جگلوٹ میں ٹیلفون پر روالپنڈی سے حضرت جیؒ کے انتقال پر ملال کی اطلاع ملی۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔جب میں چکڑالہ پہنچا تو حضرت جی ؒ کواپنی آخری آرام گاہ مل چکی تھی۔ اپنی گلگت کی جماعت کے ساتھ قبر پر حاضر ہو ا اور معمول کیا۔ وہی انوارات وہی تجلیات جو پہلے تھیں اب بھی تھیں۔حضرت جی فرماتے تھے میرے مرنے کے بعد مجھ سے زیادہ فیض ملے گا۔ بشرطیکہ رابطہ رہا۔ اللہ تعالیٰ شیخ المکرم سے رابطہ قائم رکھے اور ان کا فیض تا قیامت جاری رہے۔آمین۔