پہلا اعتراض : تصوف بدعت ہے۔
انسان بھی عجیب مجموعہ اضداد ہے۔ اس نے زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور ہر شعبہ زندگی میں پید اہونے والے مسائل کے لئے ایک الگ اصول قائم کر رکھا ہے۔ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اصول مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد بھی ہیں مثلا جسمانی صحت ایک شعبہ ہے جس کے لئے یہ اصول بنا رکھا ہے کہ صحت بگڑ جائے تو اس کے علاج کے لئے کسی ماہر طبیب یا ڈاکٹر سے مشورہ لیا جائے۔ کسی عطائی سے مشورہ لینے میں نقصان کا خطرہ ہے۔ اور اپنی سمجھ کے مطابق بھی خود علاج شروع نہ کیا جائے کیونکہ جان کا خطرہ ہے۔ اسی طرح ایک شعبہ قانونی معاملات ہیں اس سلسلے میں حرف آخر کسی ماہر قانون کی رائے کو سمجھتے ہیں۔ یہ اصول بالکل درست ہیں لیکن جہاں دین و ایمان کا معاملہ آیا ہر شخص ایک مجتہد کی طرح نہایت آزادی سے جو چاہے گا منہ سے نکال دے گا۔ اور لطف یہ کہ ہر بے تکی بات کو سند اور حرف آخر ہی سمجھے گا۔ دین کے معاملے میں اس اصول کی کارفرمائی سے عجیب مشکل پیش آتی ہے۔ (شاید ایسے حالات سے متاثر ہو کر کہا گیا ہے کہ:
تنگ برماراہ گذارِ دیں شدہ ہر لئمیے رازدارِ دیں شدہ
تصوف کو بدعت کہنے کا معاملہ بھی اسی قسم کے مجتہدین کی ذہنی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
اس ویبسائیٹ میں ایک حصہ”تصوف کا ثبوت“ کے عنوان سے موجود ہے۔ اس سوال کا تفصیلی جواب اور علمی تحقیق کا ذخیرہ اس باب میں ملے گا۔ اور اگر کسی کو اس سے زیادہ تفصیل درکار ہے اور علم سے کوئی رشتہ ہے تو فتح الباری، اقتضائے صراطِ مستقیم، الاعتصام اور فتح الملھم کے متعلقہ حصوں کو ایک نظر دیکھ لے۔
حقیقت یہ ہے کہ تصوف کو بدعت کہنا دین کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی اگر آدمی بر خود غلط بھی ہو تو اس سے بھی بڑی بڑی ٹھوکریں کھا سکتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی دستور کی عبارت میں تمام جزئیات کا بیان نہیں ہوتا بلکہ صرف اصول و کلیات بیان ہوتے ہیں۔ اسلام کا دستور قرآن ہے۔ اس میں دین کے تمام اصول و کلیات موجود ہیں۔ ان اصول و کلیات کی عملی تعبیرات اسوہ نبوی میں موجود ہیں اور ان اصول و کلیات سے جزئیات کا استخراج کا طریقہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھادیا۔ علماء حق جو ورثۃ الانبیاء ہیں اس طریق استخراج کے مطابق وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے جزئیات کا استخراج کرتے رہے ہیں۔
اصول اور کلیات مقاصد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ذرائع و وسائل کو ڈھونڈ نکالنا جو مقاصد کے حصول میں ممد ثابت ہوں اور انہیں ذرائع سمجھ کر ہی اختیار کیا جائے دین کے خلاف کیونکر ہو سکتا ہے۔ ہاں یہ وسائل اس صورت میں بدعت ہوں گے جب انہیں جزو دین یا اصل دین سمجھا جائے۔ ورنہ یہ وسائل مقاصد کے حکم میں ہوں گے۔ کیونکہ ذرائع اور وسائل مقصد کا موقوف علیہ ہیں۔ مثلا قرآن مجید میں حکم ہوا
یٰآ یھا الرسول بلغ ما انزل الیک (المائدہ)
یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلغوا عنی ولوکان اٰیۃ۔
یہ حکم دیا گیا کہ تبلیغ کرو۔ پس تبلیغ کرنا مقصد ٹھہرا ذریعہ کی تعیین نہیں کی۔ زبان سے ہو، تحریر سے ہو، عمل سے ہو، منبر پر چڑھ کر ہو، کرسی پر بیٹھ کر ہو، مسجد میں ہو، میدان میں ہو، گاڑی میں بیٹھ کر ہو، موٹر میں ہو، تقریر میں لاؤڈ سپیکر استعمال کیا جائے۔ یہ تمام ذرائع ہیں اور چونکہ یہ ذرائع اشاعت دین کیلئے ہیں لہذایہ مقدمہ دین ہیں۔
یااللہ تعالیٰ نے حکم دیا: یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااذْکرواللہ ذکرا کثیرا(الاحزاب)۔ اب یہ کہ تنہا ذکر کریں، حلقہ میں بیٹھ کر کریں، زبان سے کریں، قلب و روح سے کریں، چلتے پھرتے کریں، بیٹھ کر کریں یا لیٹے ہوئے کریں، انگلیوں پر گن کر کریں یا تسبیح کے ذریعہ کریں۔ تمام وسائل و ذرائع ہیں اور ذکر الٰہی مقصد ہے۔ ان ذرائع کو بدعت کہنا حصول مقصد میں رکاوٹ پیدا کرنا نہیں تو اور کیاہے۔
میں مسلک کے لحاظ سے دیو بندی ہوں۔ شرک و بدعت کا دشمن ہوں۔ انسان پرستی اور قبر پرستی کا دشمن ہوں، نذر نیاز کھانا، مقررہ اوقات پر عرس کرنا، غیروں کے مال پر نظر رکھنا میرے مسلک کے خلاف ہے۔ میرا مسلک یہ ہے کہ دائیں ہاتھ میں کتاب اللہ، بائیں ہاتھ میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سامنے سلف صالحین کی اختیار کردہ صراطِ مستقیم اور بس۔ امور کشفیہ کا اعتبار ہوگا جب کتاب و سنت سے متصادم نہ ہوں ورنہ القائے شیطانی ہوگا۔ میرا سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ ہے جس میں روح سے بھی فیض لیا جاتا ہے۔ مگر روح سے فیض لینے سے مراد وہ نہیں جو جہلاء سمجھتے ہیں بلکہ روح سے کسب فیض کی حقیقت جاننے کے لئیے دلائل السلوک کے متعلقہ باب کا مطالعہ کیجئیے۔ ہاں مبتدی کے لئے روح سے فیض حاصل کرنا محال ہے۔
میں تصور شیخ کا حامی نہیں اور ہمارے سلسلہ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ وظائف لسانی میں ہمارے ہاں سب سے بڑا وظیفہ تلاوت قرآن مجید ہے۔ پھر استغفار اور درود شریف۔ حلقہ ذکر میں صرف اللہ ھو کا ذکر کرایا جاتا ہے یا ہر مقام پر آیات قرآنی کا وظیفہ بتایا جاتا ہے۔ سیر کعبہ میں لبیک کا وظیفہ اور فنا فی الرسول میں درود شریف۔ باقی تمام منازل سلوک میں سوائے اسم اللہ کے کوئی دوسرا ذکر نہیں بتایا جاتا۔
رفقاء کو جمع کرکے توجہ کرنا، سانس کے ذریعے ذکر کرنا وغیرہ مقصود نہیں سمجھتا بلکہ وسیلہ اور مقدمہ مقصود کا سمجھتا ہوں۔ نہ خود حلقہ بنانا دین ہے نہ توجہ کرنا ہی دین ہے۔ نہ صرف ناک سے سانس لینا ہی دین ہے، ہاں یہ مقدمات دین اوراد و وظائف ہیں۔ ہمارے سلسلہ میں ان کی قطعا کوئی گنجائش نہیں جو سنت سے ثابت نہ ہوں۔ ہمارے اختیار کردہ وظائف و معمولات میں سے اگر کسی چیز پر بدعت کا اطلاق ہوتا ہے تو ثبوت پیش کیجئے۔ کتاب و سنت کی واضح تعلیمات ہمارے سامنے ہیں۔ انہیں کو مشعل راہ، مصدر ہدایت اور معیار ہدایت سمجھتے ہیں اور بس۔
ظہارِ کشف و الہام جائز نہیں
تحدیث نعمت اور اظہار دین
تحدیث نعمت از روئے حکم باری تعالیٰ ضروری ہے۔ صاحب تفسیر مظہری نے وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ(الضحیٰ)میں فرمایا کہ صوفیہ کرام کے اس اظہار پر تنکیر نہ کی جائے اور ارشاد الطالبین میں مذکور ہے کہفَمَنْ اَنْکَرَ عَلیٰ ھٰءُولَاءِ الرِّجَالِ فِی مِثْلِ ھٰذِہٖ الْمَقَالِ فَکَاَنَّہ‘ اَنْکَرَ ھٰذِہِ الْاٰیَۃَ (جس نے اس قسم کی باتوں میں صوفیہ کا انکار کیا گویا اس نے آیت قرآنی کا انکار کیا)۔
اور مشکوٰۃ باب اللباس فصل دوم میں حضرت عمر بن شعیبؓ سے روایت ہے قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ ﷺ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ اَنْ یُّریٰ اَثْرَ نِعْمَۃِ عَلیٰ عَبْدِہٖ (اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی نعمت کا اظہار کیا جائے جو بندہ پر ہوئی)
اور اللمعات شرح مشکوٰۃ ۳:۵۴۸میں ہے
جا معلوم شود کہ پوشیدہ کردن نعمت و کتمان آں روانیست و گویا موجب کفران نعمت است وہم چنیں ہر نعمتے کہ وے تعالیٰ بر بندہ داد مثل علم و فضل، باد کہ ظاہر کند تامردم بستناسند واستفادہ نمایند ودر مصداق مما رزقنٰھم ینفقون داخل شود۔
اس سے معلوم ہوا کہ نعمت کا چھپانا جائز نہیں۔گویایہ نعمت کی ناشکری ہے۔ اسی طرح وہ نعمت جو اللہ تعالیٰ نے بندہ پر فرمائی مثلا علم اور فضیلت (خواہ علم ظاہری ہو یا باطنی) اس کا اظہار ضروری ہے تاکہ لوگ واقف ہو جائیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں اور وہ قرآن مجید کی آیت ’’جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں‘‘ کے مصداق میں داخل ہوجائے۔
فائدہ: اظہار کمالات باطنیہ برائے فائدہ خلق جائز اور چھپانا ناجائز اور چھپانے والا ماخوذ ہوگا۔ ہاں مدار نیت پر ہے
اور تفسیر جمل ۲:۴۴۵میں اسی آیت کے ضمن میں مذکور ہے۔
وَلِذَالِکَ جَوَّزُوْا لِلْخَامِلِ اَنْ یُّعِیْنَ نَفْسَہ‘ حَتیٰ یُعْرَفُ فَیَقْتَبِسْ مِنْہُ لَمْ یَکُنْ مِنْ بَابِ التَّزْکِیَۃِ۔
اسی وجہ سے گمنام آدمی کے لئے جائز ہے کہ اپنے آپ کو ظاہر کرے کہ لوگ اس کو پہچان کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔تو اسکا اپنے اوصاف بیان کرنا فخر میں داخل نہ ہوگا
اور تفسیر ابن کثیر ۲:۴۸۲میں ہے
قَالَ اجْعَلْنِی عَلیٰ خَزَاءِنِ الْاَرْضِ ....... مَدَحَ نَفْسَہ‘ وَیَجُوْزُ لِلرَّجُلِ ذِٰلکَ اِذَا جَھَلَ اَمْرَہ‘ لِلْحَاجَۃِ۔
مجھے خزانوں پر مامور کردے (حضرت یوسف ؑ کا یہ فرمانا) اپنی مدح کا بیان ہے اور آدمی کے لئے ایسا اظہار اور مدح جائز ہے۔ جب لوگوں کو ضرورت ہو اور اسکا کمال پوشیدہ ہو۔
اور اسی آیت کے تحت تفسیر جمل ۳:۵۴۸میں ہے
اَمَّا اِذَا قَصَدَ تَزْکِیّۃُ النَّفْسِ وَمَدَحَھَا اِیْصَالُ الْخَیْرِ وَالنَّفْعِ اِلَی الْغَیْرِ فَلَا یَکْرَہ۔ذٰٓلِکَ وَلَا یَحْرُمُ بَلْ یَجِبُ عَلَیْہِ ذٰلِکَ مِثَالُہ‘ اَن یَّکُوْنَ بَعْضُ النَّاسِ عِنْدَُہُ عِلْم’‘ نَاِفع’‘ وَلَا یَعْرِفُ بِہٖ فَاِنَّہ‘ یَجِبُ عَلَیْہِ اَنْ یَقُوْلَ اَنَا عَالِم’‘۔
اگر کوئی شخص اپنی تعریف محض لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے کرتا ہے تو یہ نہ مکروہ ہے نہ حرام، بلکہ اس کا اظہار واجب ہے۔ مثلا ایک آدمی کے پاس علم ہے۔ اور نافع علم اور لوگوں کو اس کی واقفیت نہیں تو اس پر واجب ہے کہ یہ اعلان کرے کہ میں اس علم کا عالم ہوں۔
عدم اظہار مشروط بہ شرط ہے
جو شخص اظہار میں فخر سمجھتا ہو یا اس اظہار سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہتا ہو جو شرعا حلال نہیں تو اس کا اظہار ریا، خود نمائی اور فخر میں داخل ہوگا اور یہ ناجائز ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ایک قانون کی نشاندہی کی ہے۔
وَمِنْ ھٰذَا یُوخَذُ الْاَمْرُ بِکْتِمَانِ النِّعْمَۃِ مَتیٰ یُوْجَدُ وَیَظْہَرُ کَمَا وَرَدَ فِیْ حَدِیْثِ اِسْتَعِیْنُوْا عَلیٰ قَضَاءِ الْحَوَاءِجِ بِکِتْمَانِھَا فَاِنَّ کُلُّ ذِیْ نِعْمَۃٍ مَحْسُوْد’‘۔ (تفسیر ابن کثیر ۳:۴۶۹)
اس سے معلوم ہوا کہ نعمت کا اس وقت تک کتمان ضروری ہے جب تک وہ ظاہر ہو کر وجود میں نہ آجائے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے اپنی حاجتوں کی امداد انہیں (پورا ہونے تک) پوشیدہ رکھ کر کرو کیونکہ ہر صاحب نعمت محسود ہوتا ہے۔
فوائد
(۱) اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ پر انعام کرنا چاہتا ہے اور اس بندہ کو بذریعہ کشف و الہام مطلع فرمادیتا ہے تو جب تک وہ انعام حاصل نہ ہو جائے اظہار نہ کرے شاید وہ نعمت روک لی جائے۔
(۲)جس پر انعام زیادہ ہوگا اس کے حاسد بھی اسی نسبت سے بہت ہوں گے۔
(۳)وہ اسرارورموز جو اللہ تعالیٰ اور ولی اللہ کے درمیان خاص ہیں اور ان کے اظہار سے مخلوق کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ اظہار فتنہ مخلوق کا سبب بنے تو ان کا اظہار صحیح نہیں۔ ان امور کو ظاہر نہ کرے تاکہ صاحب اسرار بن جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ کمال خواہ کسی قسم اور کسی درجے کا ہو ظاہر ہو کر ہی رہتا ہے۔
نیکو ردی تاب مستوری ندارد چوبندی درز روزن سر بر آرد
اگر اظہا ر نہ ہو تو حق باطل میں تمیز کیسے ہو۔ حقیقی صوفیہ اور بے معنی مدعیان تصوف میں فرق کیونکر ظاہر ہو لوگوں کو کیسے معلوم ہو کہ صحیح اسلامی تصوف کیا ہے؟ عوام کی تو یہ حالت ہے کہ ہر دیوانے کو مجذوب سمجھنے کے لئے تیار ہیں اور مدعیان تصوف میں سے جسے چاہیں قطب زماں سمجھتے ہیں۔
Is Tasawwuf Bidah?
Man is a strange unity comprising of many diversities. He has divided life into multiple categories and adopts different principles for dealing with these categories. And the rules for dealing with different aspects of life are not only different, but also contradictory. For example, when physiological health is involved, the rule is that one should seek advice from a physician or specialist. It is risky to seek advice from a quack or try to treat one's own self, as it can put one's life in danger. Similarly, when legal matters are involved, people consider an expert lawyer to be the final authority. So far so good, but when it comes to matters of Deen, all and sundry consider themselves to be an Islamic Jurist and utters whatever nonsense he or she can think of. On top of it, everyone believes whatever they say to be the final word and authority. The adoption of this absurd principle presents a peculiar problem when trying to understand the matters of Deen.
The categorization of Tasawwuf as Bidah is the result of the intellectual efforts of the kind of self-styled Jurists mentioned above.
There's a section in this website named Proof of Tasawwuf. The detailed answer to this question and the supporting evidence can be found in that section. If someone needs further details beyond that and has some interest in knowledge, they can take a look at the relevant portions of Fath-ul-Bari, Iqtaza-e-Sirat-e-Mustaqeem, Al-Aitesam, and Fath-ul-Mulhim.
The truth is that calling Tasawwuf a Bidah is the consequence of not understanding the Deen. On top of that, if one is also self-righteous, they can make even greater blunders. It is a self-evident fact that a book of constitution does not contain all the detailed implications of the law, but only states the laws and the rules. The Quran is Islam's Constitution. It contains all the rules and laws of the Deen. The application of these laws in demonstrated by the illustrious life of the Holy Prophet ﷺ, who has also taught us the way of deriving corollaries and implications from the stated laws. The righteous scholars kept deriving the smaller implications from these laws to meet the needs of the changing times.
The rules and laws constitute the ends or goals. Searching for the ways and means to reach those goals, and adopting such ways and means while considering them to be just the means for achieving the desirable ends, how can this go against the Deen? However, these means will only be termed as Bidah if they are considered Deen in themselves or believed to be the ends, not the means. Otherwise, they will be permissible under the categories of ways and means, because means and ways are focused at achieving the ends. For example, Allah SWT Commands in the Quran:
یٰآ یھا الرسول بلغ ما انزل الیک (المائدہ)۔
Or the Holy Prophet ﷺ said: بلغوا عنی ولوکان اٰیۃ۔
It was commanded to preach, so to preach became the objective or the end. No means were specified. Preaching may be done with the tongue, in writing, from a pulpit, while sitting on a chair, in a mosque or an open field, in a train or in a car, or through a speech on a loud speaker--these are all ways and means. And they are permissible in the Deen because they are being used for spreading the Deen.
Or, Allah SWT Commands:
یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااذْکرواللہ ذکرا کثیرا(الاحزاب)۔
Now, Zikr may be performed alone, in a congregation, with the tongue, or with the heart and Rooh, while walking, sitting or reclining, while counting on a Tasbeeh or on one's fingers. All these are ways and means, whereas Zikr-Allah is the objective. Calling such means as Bidah amounts to causing obstruction in the achievement of the objective.
I belong to the Deo-Bandi School and am an enemy of Shirk and Bidah. I am strictly against worshiping personalities and graves. Eating of the Niaz (alms), celebrating Urs (death anniversary) at fixed times, and eyeing other people's money are against my beliefs. My belief is that one should have the Holy Quran in the right hand, and the illustrious Sunnah in the left, and walk on the straight path that our righteous ancestors adopted. The matters of Kashf will be believable only when they don't contradict the Book and the Sunnah, otherwise they will be considered a work of Satan. My Silsila is Naqshbandia Awaisia, in which Faiz is also acquired from the Rooh. But the extraction of Faiz from Rooh is not what the ignorant folks believe it to be. Please read the relevant chapter in Dalail-us-Salook to learn more about the drawing of Faiz from Rooh. It is not possible for a beginner to extract Faiz from the Rooh.
I'm not a supporter of imagining about the Shaykh and it is not allowed in our Slisila. Among the oral Wazaif, the biggest Wazifa in our Silsila is the recitation of the Holy Quran, followed by Astaghfar and Darood Sharif. In the circle of Zikr, only the Zikr of Allah-Hu is practiced, and the Wazifa of Ayaat from the Quran is taught for different spiritual stations. The Wazifa of "Labbaik" is prescribed for "Sair-e-Kaaba" and Darood Sharif is recited for Fana-fir-Rasool. No other Wazifa except the Name "Allah" is practiced for the destinations of Salook.guidance, and that's about it.
Answer to the Second Objection
It has been wrongly presumed that matters pertaining to Kashf should not be disclosed. No only the masses, but even some of the Ulema consider expression of Kashf as unlawful and criticize it. The fact is that expression of the knowledge of Salook becomes essential for three reasons:
1. Allah's blessing must be talked about, as a token of his gratitude
2. Salook is an important branch of the Deen and must be propagated in its entirety, as a matter of obligation
3. The fact that a particular truth is being denied makes the expression of that truth necessary. In this case, the denial of Tasawwuf has crossed all limits, and has reached a stage where this fundamental branch of the Deen is being refuted.
Talking about Allah's Bounties and Expressing Faith
It is essential to express Allah's blessings, as enjoined in the Holy Quran:
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ
You shall proclaim the blessing your Lord has bestowed upon you.
The author of Tafseer-e-Mazhar writes in the explanation of this verse: "No refutation should be made by anyone upon the disclosure of Allah's bounties by the Sufis. According to Irshad-ut-Talibeen, "whoever refutes the Sufis in such things denies the Ayaat of the Quran."
In Mishkat Vol II "Chapter on Raiment," Hazrat Umer bin Shoaib (RAA) has quoted the Prophet ﷺ:
"Allah likes that His servants should talk about His bounties."
According to "Al-Lama'at (an explanation of Mishkat Vol III P548):
"The concealment of Allah's bounty is not permissible because it amounts to ingratitude. Similarly, any blessing that He bestows upon His servants such as knowledge and other forms of excellence (inward and outward) must be expressed. This will keep the people informed and allow them to benefit from that blessing. Such a disclosure will, of course, be in accordance with the Quranic pronouncement: "...spend of what We have bestowed upon them." (2:3)
Benefit: The expression of spiritual (inward) excellence for the benefit of people is permissible, and concealing it is forbidden. The one who conceals such blessings will be held accountable. However, it depends upon the intention.
Tafseer-e-Jumal 2:445 states under the explanation of the same Ayah:
"Therefore, it is permissible for an unknown person to make himself known, so that people may benefit from him. So, if he states his qualities, it will not be counted as pride."
And Tafseer-ibn-Kathir 2:482 states:
"Appoint me upon the treasures," (as Hazrat YousufAS said to the King) is the expression of one's own praise, and it is permissible for a person to express his own praise when the people need it and his excellence is hidden."
And Tafseer-e-Jumal (3:548) continues explaining under the same Ayat:
"If a person praises himself just for the sake of benefiting people, it is neither undesirable nor prohibited. Rather, it is mandatory (Wajib) to make such expression. For example, if a person has knowledge that is beneficial for people, and the people don't know about it, it is mandatory for that person to announce that he holds such knowledge."