تصوف کا ثبوت
حدیث جبرئیلؑ
کتب احادیث میں حدیث جبرئیل ؑ کو اصول دین کے بیان میں بنیادی حیثیت حاصل ہے جس میں دین کو اسلام، ایمان اور احسان سے مرکب بیان فرمایا گیا ہے احسان کی وضاحت یوں بیان کی گئی ہے۔
قَالَ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسْسانِ۔ قَالَ اَنْ تَعْبُدُ اللہ کَانَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہ‘ یَرَاکَ قَالَ ؑ لِیْ یَا عُمَرُ اَتَدْرِیْ مَنِ السَّاءِلُ قُلْتُ اللہ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ۔ قَالَ ؑ فَاِ نَّہ‘ جِبْبِریْل’اَتاَ کُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ (مشکواۃ، کتاب الایمان)
جبرئیل ؑ نے کہا مجھے احسان کے متعلق بتائیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے۔ پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا ہے تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا۔ "اے عمر! کیا تم جانتے ہو سائل کون تھا"۔ میں نے عرض کیا۔ اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا۔ یہ جبرئیل ؑ تھے تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔“
اس حدیث کی شرح میں شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ نے امام مالک ؒ کا قول نقل فرمایا ہے۔
قاَلَ الْاِماَمُ مَالِکٍ مَنْ تَصَوَّفَ وَ لَمْ یَتَفَقَّہَ فَقَدْ تَزَنْدَقَ وَمَنْ تَفَقَّہَ وَلَمْ یَتَصَوَّفَ فَقَدْ تَفَسَّقَ وَمَنْ جَمَعَ بَیْنَھُمَا فَقَدْ تَحَقَّقَ۔
”امام مالک نے فرمایا جس نے فقہ کے بغیر تصوف حاصل کیا وہ زندیق ہوا۔ اور جس نے تصوف سیکھے بغیر فقہ کا علم حاصل کیا وہ فاسق ہوا۔ اور جس نے دونوں کو جمع کیا وہ محقق ہوا۔
بد آنکہ بنائے دین و کمال آن بر فقہ وکلام و تصوف است وایں حدیث شریف بیان ایں ہر سہ مقام کردہ اسلام اشارت بہ فقہ است کہ متضمن بیان اعمال و احکام شرعیہ است و ایمان اشارت باعتقادات کہ مسائل اصول کلام اند و احسان اشارت بہ اصل تصوف است کہ عبارت از صدق توجہ الی اللہ است و جمیع معانی تصوف کہ مشائخ طریقت بآں اشارت کردہ اندراجع بہمیں معنی است و تصوف و کلام لازم یکدیگر اند کہ ہیچ یکے بے دیگر تمام نہ پذیر و چراکہ کلام بے تصوف و تصوف بے فقہ صورت نہ بندد زیرا کہ حکم الٰہی بے فقہ شناختہ نہ شود و فقہ بے تصوف تمام نشود وزیراکہ عمل بے صدق توجہ تمام نہ پذیر دوہردوبے ایمان صحیح نگر دو بر مثال روح و جسد کہ ہیچ کدام بے دیگر وجود نگیر دو کمال نہ پذیرد (اللمعات شرح مشکوٰۃ: ۵۴۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوی۔)
خوب سمجھ لو کہ دین کی بنیاد اور اسکی تکمیل کا انحصار فقہ کلام اور تصوف پر ہے اور اس حدیث شریف میں ان تینوں کا بیان ہوا ہے۔ اسلام سے مراد فقہ ہے کیونکہ اس میں شریعت کے احکام اور اعمال کا بیان ہے اور ایمان سے مراد عقائد ہیں جو علم کلام کے مسائل ہیں اور احسان سے مراد اصل تصوف ہے جو صدق دل سے توجہ الی اللہ سے عبارت ہے مشائخ طریقت کے تمام ارشادات کا حاصل یہی احسان ہے تصوف اور کلام لازم ملزوم ہیں۔ کیونکہ تصوف بغیر کلام کے اور فقہ بغیر تصوف بے معنی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے احکام فقہ کے بغیر معلوم نہیں ہوتے اور فقہ بغیر تصوف کے کامل نہیں ہوتی کیونکہ کوئی عمل بغیر اخلاص نیت کے مقبول نہیں اور یہ دونوں ایمان کے بغیر بیکار ہیں۔ ان کی مثال روح اور جسم کی ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر نا تمام رہتے ہیں۔
فائدہ۔ تصوف جزوِ دین ہے اور انتفائے جزو مستلزم ہے انتفائے کل کو۔ پس انکارِ تصوف مستلزم ہوگا انکارِ دین کو۔
عالم جب تک تصوف و سلوک سے بے بہرہ ہے نہ وارثِ رسول ﷺ ہے نہ نائب رسول ﷺ۔
ولاَ یٰکُوْنُ الْخَلِیْفَۃُ اِلَّا مَنْ جَمَعَ الْمَقَاصِدَ الثَّلَاثَۃِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا ھَا وَحَفِظَ الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ وَتَدَرَّبَ فِیْ قَوَانِیْنِ السُّلُوْکِ وتَرْبِیَّۃِ السَّا لِکِیْنَ۔(تفہیمات الٰہیہ: ۳۱)
خلیفہ رسول ﷺ صرف وہ شخص ہوگا جس نے دین کے تینوں شعبے جمع کئے ہوں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور کتاب اللہ اور سنتِ رسول ﷺ کو یاد کیا ہو اور قوانین علم سلوک اور تربیت سالکین میں کوشش کی ہو۔
فائدہ: (۱) اَلْعُلَماَءُ وَرَثَۃُ الاْنْبِیَاء علماء انبیاء کے وارث ہیں سے مراد وہ علماء ہیں جنہوں نے دین کے ان تینوں اجزاء کو جمع کیا ہو۔ کیونکہ فَاِ نَّہ‘ جِبْرِیْل’اَتاَکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنُکُمْ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس دین کی تعلیم کے لئے جبرئیلؑ کو بھیجا اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو پہنچایا۔ وہ تین اجزاء اسلام، ایمان اور احسان سے مرکب ہے جس میں سلوک جسے لفظِ احسان سے تعبیر کیا گیا ہے بھی شامل ہے(۲) اگر یہ تسلیم کرلیں کہ سلوک بدعت ہے تو ماننا پڑے گا کہ دین مرکب بدعت سے ہے اور جب دین بدعت و غیر بدعت سے مرکب ہوا تو پورا دین بدعت ٹھہرا۔
بعثت انبیاء کا مقصد
انبیاء علیہم السلام تین اغراض کو پورا کرنے کے لئے مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ اول تصحیح عقائد، دوم تصحیح اعمال، سوم تصحیح اخلاص۔
وَقَدْ تَکَفَّلَ بِفَنِّ الْاَوَّلِ اَھْلُ الْاَصُوْلِ مِنْ عُلَمَاءِ الْاُمَّۃِ وَقَدْ تَکَفَّلَ بِفَنِّ الثَّانِیْ فُقَھَاءُ الْاُمَّۃِ فَھَدَی اللّٰہُ بِہِمَا اَکْثَرِیْنَ وَقَدْ تَکَفَّلَ بِفَنِّ الثَّالِثِ الصُّوْفِیَۃُ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ (تفہیمات الٰہیہ ۰۳۱۔)
تصحیح عقائد کے فن کے کفیل علمائے اصول ہوتے ہیں اعمال کی تصحیح کے کفیل فقہائے امت ہوتے ہیں۔ اور فن خلوص و احسان کے کفیل صوفیہ کرام ہوتے ہیں۔
دین میں تصوف بمنزلہ روح فی الجسد ہے
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ ھٰذِہٖ الثَّالِثُ اَدَقُّ الْمَقَاصِدِ الشَّرِیْعَۃِ مَاٰخَذاً وَ اَعْمَقُھَا مَھْتَداً وَھُوَ بِالنِّسْبَۃِ اِلٰی سَاءِرِ الشَّرَاءِعِ بَمَنْزِلَۃِ الرُّوْحِ مِنَ الْجَسَدِ وَ بِمَنْزِلَۃِ الْمَعْنٰی مِنَ اللَّفْظِ (تفہیمات الٰہیہ)
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ یہ تیسرا فن مقاصد شرعیہ کے مآخذ کے لحاظ سے بہت باریک اور گہرا ہے اور تمام شریعت کے لئے اس فن کی وہی حیثیت ہے جو جسم کے لئے روح کی ہے۔ اور لفظ کے لئے معنی کی ہے۔
فائدہ۔ (۱)یہ فن ثالث اخلاص اور احسان سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اخلاص و احسان ساری شریعت کی روح ہے جس طرح روح کے بغیر بدن بے کار ہے اسی طرح بدون اخلاص عقائد و اعمال بے کار ہیں۔ (۲)تصوف کے بغیر نہ شریعت زندہ رہ سکتی ہے نہ دین سلامت رہ سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے وضاحت فرمادی ہے۔
تصوف کا حصول فرضِ عین ہے
قاضی ثناء اللہؒ پانی پتی سورہ التوبہ کی آیت مَا کَانَ لِلْمُوْمِنِیْنَ اَنْ یَنْفِرُوْ ا کَافَّۃً کی تفسیر کے سلسلے میں تصوف کے مقام اور اہمیت کی وضاحت فرماتے ہیں۔
وَ اَنَّ الْعِلْمُ الَّذِیْ یُسَمُّوْنَ الصُّوْفِیَۃُالْکِرَامُ لَدُنْیَا فَھُوَ فَرْض’‘ عَیْن’‘ لِاَنَّ ثَمَرَاتُھَا تَصْفِیَۃُ الْقَلْبِ عَنِ اِشْتِعَالِ بِغَیْرِ اللّٰہِ وَاِتِّصَافِہٖ بِدَوَامِ الْحُضُوْرِ وَتَزْکِیَۃِ النَّفْسِ عَنْ رَذَاءِلِ الْاَخْلَاقِ مِنَ الْعُجُبِ وَالتَّکَبُّرِ وَالْحَسَدِ وَحُبِّ الدُّنْیَا وَالْجَاہِ وَالْکَسْلِ فِیْ الطَّاعَاتِ وَاِیْثَارِ الشَّھَوَاتِ وَالرِّیَاءِ وَالسَّمْعَۃِ وَغَیْرِ ذَالِکَ وَتَحْلِیِّتِھَا بِکَرَامِ اْلاَخْلَاقِ مِنَ التَّوْبَۃِ وَالرَّضَاءِ بِالْقَضَاءِ وَالشُّکْرِ عَلَی النَّعَمَاءِ وَالصَّبِرِ عَلَی الْبَلَاءِ وَغَیْرَ ذَالِکَ وَلَا شَکَّ اِنَّ ھٰذِہِ اْلاُمُوْرَ مُحَرَّمَات’‘ عَلٰی کُلِّ مُوْمِنٍ اَشَدُّ تَحْرِیْماً مِنْ مَعَاصِ الْجَوَارِحِ وَاَھَمَّ اِفْتَرَاضاً مِنْ فَرَاءِضِھَا مِنَ الصَّلوٰۃِ وَالصَّوْمِ وَالزَّکوٰۃِ وَشَیْئیٍ مِنَ الْعِبَادَاتِ لَا سَیَّمَا بِشَیْئیٍ مِّنْھَا مَا لَم ْ یَقْتَرِنْ بِالْاَخْلاَصِ وَالنِّیَّۃِ۔(تفسیرمظہری ۴:۴۲۳)
صوفیہ کرام جس علم کو لُدنیّ کہتے ہیں اس کا حصول فرض عین ہے کیونکہ اس کا ثمرہ صفائی قلب ہے غیر اللہ کے شغل سے اور قلب کامشغول ہونا ہے دوام حضور سے اور تزکیہ نفس ہے رزائل اخلاق سے جیسے عجب تکبر، حسد، حب دنیا، حب جاہ، عبادات میں سستی، شہوات نفسانی، ریا، سمعہ وغیرہ اور اسکا ثمرہ فضائل اخلاق سے متصف ہونا ہے جیسے تو بہ من المعاصی رضا بالقضاء شکر نعمت اور مصیبت میں صبرو غیرہ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام امور مومن کیلئے اعضاء و جوارح کے گناہوں سے بھی زیادہ شدت سے حرام ہیں اور نماز، روزہ اور زکوۃ سے زیادہ اہم فرائض ہیں کیونکہ ہر وہ عبادت جس میں خلوص نیت نہ ہو بے فائدہ ہے اور خلوص ہی کا نام تصوف ہے۔
امام غزالی ؒ کی رائے۔
وَکَذَالِکَ یَفْتَرِضُ عَلَیْہِ عِلْمُ اَحْوَالِ الْقَلْبِ مِنَ التَّوَکَّلِ وَالْخَشْیَۃِ وَالرَّضَاءِ (تعلیم المتعلمین۱۲)
”(جیسے باقی علوم فرض ہیں) اسی طرح علم سلوک بھی فرض ہے۔ جو علم احوالِ قلب ہے جیسے توکل، خشیت،رضا بالقضاء۔“
فائدہ:۔ امام غزالیؒ کی تحقیق یہ ہے کہ علم تصوف کا حصول فرض عین ہے۔ مولانا تھانویؒ نے بھی تعلیم تصوف کو فرضِ عین قرار دیا ہے۔ (التکشف عن مہمات التصوف:۷)
علامہ شامی
علامہ شامی نے احوال قلب کی تفصیل بیان فرما کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ۔
فَیَلْزِمُہ‘ اَنْ یَّتَعَلَّمَ مِنْھَا مَا یَریٰ نَفْسَہ‘ مُحْتَاجاً اِلَیْہِ وَاِزَالَتِھَا فَرْض’‘ عَیْن’‘(شَامی دور مختار جلد اول بحث علم القلب۔)
پس مومن کو لازم ہے کہ رزائل کے دفعیہ کے لئے علم اتنا حاصل کرے جتنا اپنے نفس کو اس کا محتاج سمجھے ان کا ازالہ فرضِ عین ہے۔
تصوف اصول دین سے ہے
تفسیر جمل میں ہے
وَالدِّیْنُ الَّذِیْ لاَ یَقْبَلُ التَّغَیَّرُ ھُوَالتَّوْحِیْدُ وَالْاَخْلَاصُ وَالْاِیْمَانُ بِمَا جَاءَتْ جَمِیْعُ الرُّسُلِ عَلَیْھِمُ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ۔ (۱: ۷۹۴)
دین وہ چیز ہے جو تغیر و تبدل کو قبول نہیں کرتا وہ توحید اور اخلاص ہے جسے تمام انبیاء لے کر آئے۔
فائدہ۔ اس سے ثابت ہوا کہ تصوف اسلامی اصول دین سے ہے۔ اور یہ عبارت ہے خلوص و احسان سے اور بغیر خلوص نہ توحید مقبول ہے نہ ایمان و عمل۔
اہل السنت والجماعت کا مدار شریعت و طریقت پر ہے
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں۔
”اہل سنت کا مدار شریعت اور طریقت پر ہے انہی دونو ں باتوں کو موقع ریاست اور بزرگی کا گنتے ہیں“ (تحفہ اثنا عشریہ ۲: ۷۳۲)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ منکرین تصوف اہل سنت والجماعت میں داخل نہیں اہل سنت اور صوفیہ محققین نے تصوف اور عقیدہ تصوف کو کتاب و سنت سے وراثۃً پایا ہے اس میں سلف سے خلف تک یکسانی کے ساتھ متفق رہے ہیں۔ یہ صوفیاء کرام کا اجماعی مسلک ہے۔ ہاں وقتاً فوقتاً جو خرابیاں اس میں پیدا ہوتی رہیں محققین ان کی اصلاح کرتے رہے۔
تصوف تواتر سے ثابت ہے۔
تصوف و سلوک تواتر سے ثابت ہے اور اتنی بڑی جماعت کا تواتر ہے جو علم و عمل، زہدو تقویٰ اور خشیت میں اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ ایسی اور اتنی بڑی جماعت کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاً محال ہے۔