حضور اکرم ﷺ کے ساتھ شب معراج میں جو واقعات پیش آئے وہ واقعات کے اعتبار سے کلام بالارواح کی اصل کی حیثیت رکھتے ہیں اب حضور کا ارشاد بھی ملاحظہ ہو۔ جو دوسری حیثیت سے اصل قرار دیجاتی ہے۔
قال النبی ﷺ انی اری مالا ترون واسمع مالا تسمعون المراد بما الموصولۃ فیھما مغیبات وامورنی الملاء الاعلیٰ اطلعہ اللہ تعالیٰ علیھا وغیرہ ﷺ لا یراھا کرویۃ الملائکۃ والجنۃ والنار وعذاب القبر والاطلاع علی الموتی واحوال البرزخ سماعہلاصوات المعذبین فی القبور ۔ (نسیم الریاض۲:۸۳۱)
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا میں دیکھتا ہوں جو چیزیں تم نہیں دیکھتے۔ اور اسکلام کو سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ ان دونوں جملوں میں ما موصولہ ہے اور اس سے مراد مغیبات ہیں اوروہ امور ہیں جو ملا اعلیٰ میں واقع ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو اس پر مطلع فرمایا جو دوسرے لوگ نہیں دیکھتے۔ جیسے ملائکہ کو دیکھنا۔ جنت دوزخ، عذاب قبر کو دیکھنا،برزخ کے حالات اور ان لوگوں کی آوازیں جو قبروں میں عذاب سے دو چار ہیں۔
اس حدیث سے اور اس کی شرح سے جہاں معلوم ہوتا ہے کہ کلام بالارواح کی شریعت میں اصل موجود ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عذاب قبر مغیبات میں سے ہے اور مغیبات پر ایمان لانا فرض ہے اس لئے کشف قبور کو کشف کونی کہنا علمی لغزش ہے۔
دلائل السلوک، کلام بالارواح