کلام بالارواح
کلام بالارواح یا کشف قبور کا انکار در اصل دعویٰ بلا دلیل سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا اس موضوع پر بحث کرنے کے لئے علمی اور نقلی دلائل سے رہنمائی حاصل کی جائے تو اقرار کئے بغیر نہیں بنتی اور یہ ماننا پڑتا ہے کہ اہل اللہ پر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے جو نبی کریم ﷺ کے صحیح جانشینوں کو میراث نبویﷺ کے طور پر اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔
سب سے پہلے اس امر پر غور کرنا چاہئے کہ کلام بالارواح کی شریعت میں اصل بھی ہے یا نہیں پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ سابقین سے اس کی نقل بھی ملتی ہے یا نہیں ۔ پھر یہ دیکھنا ہے کہ اسلاف میں اس کی ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جنہیں حقیقت نفس الامری کہا جاسکتا ہے۔
اگر ان تینوں صورتوں میں دلائل قاطعہ مل جائیں تو انکار کرنا جہالت یا ضد اور عناد کے بغیر کچھ نہیں۔
بیت المقدس میں تمام انبیاء علیہم السلام کو رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کے لئے جمع کیا گیا تھا پھر ارواح انبیاء سے
مکالمہ ہوا۔ (ابن کثیر ۲:۱۸) ۔
حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے خلیل بنایاہے اور مجھے عظیم ملک عطا کیا۔ اور مجھے اطاعت شعار امت بنایا اور مجھے آگ میں سے نکالا اور آگ کو میرے لئے ٹھنڈک اور سلامتی بنادیا۔ پھر موسیٰ ؑ نے اپنے رب کی ثناء بیان کی اور کہا تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے مجھ سے خوب کلام کی اور میرے ہاتھ سے فرعون کو ہلاک کیا اور بنی اسرائیل کو نجات دی اور میری امت سے ایسے لوگ پیدا کئے جو حق و ہدایت پر قائم رہے اور رہنمائی کرتے رہے۔ پھر اسی طرح حضرت داؤد ؑ نے کہا کہ تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے مجھے سلطنت عطا کی مجھے زبور کی تعلیم دی۔ میرے لئے لوہے کو نرم کردیا اور میرے لئے پہاڑوں کو مسخر کردیا کہ میرے ساتھ مل کر پہاڑ اور پرندے تسبیح پڑھتے ہیں۔
یہ واقعہ کلام بالارواح کی اصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ
زندہ انسان ارواح کی کلام سن سکتا ہے جیسا کہ حضور اکرمﷺ نے انبیاء ؑ کے ارواح کی کلام سنی۔
زندہ انسان برزخ والوں کو دیکھ سکتا ہے۔
انسان پر دنیوی زندگی میں جو حالات گذرتے ہیں۔ برزخ میں روح کو خوب یادہوتے ہیں۔