Hazrat Allah Yar Khan

Fana-fir-Rasool, Fana-Fillah, aur Baqa-Billah

Fana-fir-Rasool, Fana-Fillah, aur Baqa-Billah

فنا فی الرسول، فنا فی اللہ اور بقا باللہ 

فنا فی الرسول، فنا فی اللہ اور بقا باللہ سلوک کے وہ منازل ہیں کہ ہزاروں اللہ کے بندے ان کے حصول کے لئے کوشاں رہے، مجاہدے اور ریاضتیں کرتے رہے اور یہی آرزولے کر دنیا سے رخصت ہوئے، ان منازل کے حصول کے لئے سچی تڑپ انسان کی سعادت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ مگر یہ منازل صرف زبانی اورادو وظائف سے حاصل نہیں ہوئے۔ یہ قلب اور روح کا معاملہ ہے اور صرف ذکر لسانی سے تصفیہ قلب اور تزکیہ باطن نہیں ہو پاتا، بلکہ ان منازل کے حصول کے لئے دوسری شراط ہیں، سب سے پہلے اصلاح قلب کی ضرورت ہے، اور اس کی صورت یہ ہے کہ ذکر قلبی کثرت سے کیا جائے اتباع شریعت اور اتباع سنت کا اہتمام کیا جائے۔ اصلاح قلب ایسا کمال ہے جو شیخ کامل کی رہنمائی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا: 
مولوی ہر گزنشد مولائے روم تا غلام شمس تبریزی نشد
اور: 
کیمیا پید اکن از مشت گلے بوسہ زن بر آستان کاملے 
ہست محبوبے نہں اندر ولت چشم اگر داری بیا بنمائمت 
شیخ کامل کی رہنمائی میسر آجائے تو اتباع سنت کا اہتمام لازمی طور پر کیا جائے۔ 
محال است سعدی کہ راہ صفا تواں رفت جز درپے مصطفی
شیخ کامل اس راہ پر اس ترتیب سے چلاتا ہے کہ سب سے پہلے لطائف کراتا ہے۔ جب وہ منور ہو جاتے ہیں تو مراقبہ احدیت کراتا ہے۔ جب یہ رابطہ خوب مضبوط ہو جائے تو شیخ اپنی روحانی قوت سے مراقبہ معیت پھر اقربیت کراتا ہے، پھر دوائر ثلاثہ پھر مراقبہ اسم الظاہر و الباطن۔ یہ مراقبات عالم ملکوت سے گزار کر شیخ کامل کراتا ہے۔ پھر مراقبہ سیر کعبہ، پھر سیر صلوٰۃ، پھر سیر قرآن۔ اس کے بعد مراقبہ فنا فی الرسول کراتا ہے اور دربار نبوی میں حاضری ہوتی ہے۔ فنا فی الرسول کا مطلب یہ ہے کہ آدمی حضور اکرم ﷺ کی محبت اور آپ کی سیرت میں فنا ہو جائے۔ پھر شیخ کامل توجہ روحانی سے فنا فی اللہ اور بقا باللہ کا مراقبہ کراتا ہے۔ یہ ذکر لسانی سے حاصل نہیں ہو سکتیں بلکہ شیخ کامل کی توجہ سے ذکرقلبی کرنے سے یہ مقامات حاصل ہوتے ہیں۔ مراقبہ فنا بقا میں عجیب سی کیفیت ہوتی ہے۔ سالک کا وجود زمین پر ہوتا ہے اور روحانی طور پر یوں محسوس کرتا ہے کہ عرش بریں پر اللہ تعالیٰ کے سامنے سر بسجود ہے اور سبحان ربی الاعلیٰ اور سبحان ربی العظیم کہہ رہا ہے، عرش معلی اللہ تعالیٰ کے ذاتی انوار تجلیات کا مہبط ہے۔ وہ انوار و تجلیات سرخ سنہری معلوم ہوتے ہیں۔ کائنات کی کیفیت یوں معلوم ہوتی کہ ہر چیز شجر، حجر، حیوان، ملائکہ سبحان ربی الاعلیٰ اور سبحان ربی العظیم پکار رہے ہیں۔ ایک گونج اٹھتی ہے اور سالک پر سب چیزوں سے غفلت طاری ہو جاتی ہے۔
 
حضرت مولانا اللہ یار خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، دلائل السلوک
 

 

Related Articles