urdu
قَدْیَءِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ کَمَایَءِسَ اْلکُفَّارُ مِنْ اَصْحَابِ اْلقُبْوُرِ(۱۳) (رکوع ۸پارہ۲۸)
آخرت سے ایسے ناامید ہو گئے جیسے کافر اہل قبور سے نا امید ہو گئے۔اہل قبور سے کیا امید ہوسکتی ہے۔مرنے کے بعد زندہ لوگوں کی طرح تو وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہے۔اب وہ برزخ میں ہیں جہاں روح فعال ہوتی ہے اور جسم غیرفعال۔روح لطیف ہے اور ملا ئکہ سے بھی زیادہ لطیف۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روح ملائکہ کے نفخ سے پیدا ہوئی اور ملائکہ نور سے ہیں۔سننا،دیکھنا،کلام کرنا اس کے اوصاف میں سے ہیں۔صاحب جامع اصول الاولیا ء لکھتے ہیں کہ علی القرشی ؒ نے کہا ہے کہ میں نے چار بزرگوں کو دیکھا کہ وہ اپنی قبروں میں زندہ لوگوں کی طرح تصرف کرتے ہیں (۱)شیخ عبدالقادر ؒ (۲)شیخ معروف کرخی ؒ (۳) شیخ عقیل منیجی ؒ (۴) شیخ حیات بن قیس ؒ ۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے بھی مشکوٰۃ کی فارسی شرح کی کتاب " الموتیٰ والقبور" میں ان کا ذکر کیاہے۔
ابو بشر حافی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے گھر کے اندر گیا تو میں نے ایک دراز قد آدمی کو دیکھا کہ وہاں نماز پڑھ رہا ہے۔ میں ڈر گیا کیونکہ گھر کے دروازہ کی کنجی میرے پاس تھی۔اس شخص نے نماز ختم کر کے مجھ سے کہا کہ ڈرو نہیں میں تمہارا بھائی خضر ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے کچھ تعلیم کیجیے جس سے اللہ تعالی مجھے فائدہ دے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ کہو میں بخشائش چاہتا ہوں خدائے عزوجل سے اور اس سے توبہ چاہتا ہوں ہر ایسے گناہ سے جس کو میں نے توبہ کے بعد پھر کیا اور بخشائش چاہتا ہوں خدائے عزوجل سے اور اس سے توبہ چاہتا ہوں ہر ایسے عہدسے جو میں نے خدا کیلئے اپنی ذات سے کیا اور اس کو توڑ دیا اور اس کو پورا نہ کیا اور بخشائش چاہتا ہوں خدائے عزوجل سے اور اس سے توبہ چاہتا ہوں ہر ایسی نعمت کے بارے میں جو اس نے عمر بھرعطا فرمائی اور اس سے میں نے اس کی نافرمانی میں مدد لی۔
احمد بن ابی الحواری ؒ فرما تے ہیں کہ خضر علیہ ا لسلام نے درد کیلئے مجھے ایک دعا بتائی اور کہا کہ جب تمہارے کہیں درد ہو تو اس موقع پر ہاتھ رکھو اور کہو
چنانچہ میں ہمیشہ درد کے مقام پر اس کو پڑھ کر پھونکتا ہوں اور وہ فوراً چلا جاتا ہے۔
جمہور علماء اور محدثین فقہاء توسل کے قائل ہیں چنانچہ کوئی شخص اپنی دعا میں یوں کہے کہ الہی بحرمت فلاں یا بوسیلہ یا بطفیل فلاں میری اس حاجت کو پورا فرما دے تو اس طرح دعا کرنے میں کوئی خرابی نہیں یہ جائز اور مباح ہے۔درود شریف کا پڑھنا بھی ایک قسم کا توسل ہے۔ حضرت سعدی ؒ کا "الہی بحق بنی فاطمہ"زبان زد خلائق ہے کہ ائے اللہ حضرت فاطمہ کی اولاد کے طفیل سے میرا خاتمہ ایمان پر ہو۔ قاعدہ جلیلہ صفحہ ۴۹ میں ہے وسیلہ پکڑنا ساتھ نبی ﷺ بعد وفات کے بعض صحابہ اور تابعین اور امام احمد سے منقول ہے۔
چاہیے کہ بندہ شب وروز میں ایک وقت توسل کرے اور بہتر وقت تہجد کے بعد کا ہے اگر دو وقت کر لے تو زیادہ بہتر ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ فاتحہ ایک بار پڑھے اور تین بار سورۃ اخلاص پڑھے اور پھر کہے کہ الہی جو کچھ میں نے پڑھا ہے اس کا ثواب حضورﷺ کی روح مقدس کو پہنچا دے اور تمام انبیاء اور مرسلین کی ارواح اور ملائکہ مقربین اور صحابہ اور تابعین اولیاء اور صالحین خصوصاً حضرات نقشبندیہ اویسیہ کی ارواح کو۔
مرشد بلاشبہ راہ خدا کا وسیلہ ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف پہنچنے کیلئے وسیلہ تلاش کرو۔ یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آٰمَنُوْ ااتَّقُوْا اللّٰہَ وَاْبتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَہ (المائدہ) حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ استمدادکی صورت یہی ہے کہ محتاج انسان اپنی حاجت طلب کرتاہے اللہ تعالیٰ سے کسی بندہ مکرم کی روحانیت کے توسل سے جو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقرب و برگزیدہ ہوتاہے اور محتاج یہ کہتا ہے کہ "ائے بندہ خدا اورائے اللہ کے ولی میرے لئے سفارش کر اور اللہ تعالیٰ سے میرے لئے مطلوب کو طلب کر تاکہ اللہ تعالیٰ میری حاجت کو پورا کر دے "۔بندہ تو درمیان میں وسیلہ ہی ہے معطی اور مسؤل تو پروردگار ہی ہے۔توسل بالاتفاق جائزہے پھر یہ توسل بعد ازوفات ناجائز کیسے ہوگا۔کیونکہ ارواح کاملین کا تصرف دنیا اور بعد از موت میں کچھ فرق نہیں۔شرح مشکٰوۃ میں اور شرح صدور میں علامہ سیوطی ؒ نے مفصل ذکر کیا ہے۔(فتاوٰی عزیزی جلد ۲ صفحہ۱۰۸)
ایک شخص اپنے کسی مقصد کے لیے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کی خدمت میں مختلف اوقات میں آیا مگر حضرت عثمان ؓ اس کی طرف التفات نہیں فرماتے تھے۔ وہ شخص حضرت عثمان بن حنیفؓ سے ملا کہ وہ اسے کوئی تدبیر بتائے۔ حضرت عثمان بن حنیفؓ اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں جب ایک نابینا شخص حضورﷺ کے پاس آیا تھا اور بینا ہونے کی درخواست کی تھی اِس کے اصرار پرنبیﷺ نے اسے کہا تھا کہ پڑھ میرے ساتھ اَللّٰہُمَّ اِنّیِ اَسْءَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِی محمدنَبِیِ الرَّحْمَۃ یَامحمد اِنِّی اَتَوَجَّہُ اِلٰی رَبِّی بِکَ اَنْ یَّکْشِفْ لِی عَنْ بَصَرِی اَللّٰہُمَّ شَفَعَہٗ فِی وَشَفَعَنِی فِی نَفْسِی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے اپنی کتاب میں روایت کیا ہے۔ حضرت عثمان بن حنیفؓ نے اس شخص سے کہا کہ وضو کی جگہ پر چل کر وضو کرو پھر مسجد میں جا کر دو رکعت صلوٰۃ حاجت پڑھو پھر اس طرح دعا کرو۔اَللّٰہُمَّ اِنّیْ اَسْءَلُکَ وَاَتَوَ جَّہُ اِلَیْکَ بِِنبَِِیْ مُحمّد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نَبی الرَّحْمَۃ یامحمّدصلی اللّٰہ عَلَیْہ وسلم اِنَّی اَتَوَجَّہُ اِلٰی رَبِّی بِکَ فَیَقْضِی حَا جَتِیْ۔(اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف میں اپنے نبیﷺ جو نبی رحمت ہیں کو اپنا سفارشی بناتا ہوں کہ میری حاجت پوری کر دی جائے)اس کے بعد اپنی حاجت کا ذکر کرو پھر میرے پاس آؤ۔ بلغتہ الحیران صفحہ ۳۳۷ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے قول "مجھے مصیبت کے وقت پکارو"کی توجیہ اس طرح کی گئی ہے کہ اذکرنی یعنی مجھے پکارو کا معنیٰ یہ ہے کہ میرے وسیلہ سے دعا مانگو۔
قرآن پاک کی متذکرہ آیت یَءِسَ اْلکُفَّارُمِنْ اَصْحَابِ الْقُبُور کے مطابق اہل قبور کی روح سے اکتساب فیض کے منکرصرف کفارہی ہو سکتے ہیں مومن نہیں۔ اویسیہ سلسلہ کی بنیاد ہی صاحب قبر سے رابطہ کر کے فیض حاصل کرنا یا فیض دینا مقصو د ہے اگر برزخ والوں سے آپ کا رابطہ نہیں ہے اور آپ میں اہل قبور سے فیض لینے یا دینے کی استعداد نہیں ہے تو پھر آپ اویسی نہیں ہیں۔ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے آخری شیخ حضرت مولانا اللہ یار خان ؒ اپنے مریدین کی روحانی تربیت کر کے آقائے نامدار حضرت محمدﷺ کی خدمت میں روحانی بیعت کیلئے پیش کیا کرتے تھے۔ روحانی بیعت سے سینکڑوں لوگ مستفیض ہوئے اور اب تک ان کے طفیل مستفیض ہو رہے ہیں۔
حضرت شاہ اسمعیل شہید نے "عبقات" میں لکھا ہے کہ فنا بقا کے منازل کے حامل شخص کا ایک ایک سجدہ دوسروں کی سو سو سال بلکہ ایک ایک لاکھ سال کی عبادت سے بھی بہتر ہوتاہے۔ اس سجدے کی برتری کی بنیاد نہ تو علم ودانش کا حامل ہونا ہے نہ عبادت کی زیادتی اور نہ ذکر کی کثرت پر اس کا مدار ہوتا ہے یہ تو وہ تاثیری عمل ہے جس کے طفیل جن لوگوں کے قلوب پر اللہ جل شانہ، اپنی تجلی فرماتا ہے تو وہ ایسے اوصاف کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
داراوسکندرسے وہ مردِفقیراولیٰ ہوجس کی فقیری میں بُوئے اسد اللہٰی
قادری چشتی اورسھروردی سلاسل حضرت علیؓ سے چلتے ہیں جبکہ سلسلہ نقشبندیہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے چلتا ہے حضرت حسن بصری سب سلاسل میں موجود ہیں۔ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ یوں ہے۔حضرت محمد ﷺ (۱)حضرت ابوبکرصدیق ؓ (۲)حضرت حسن بصری ؓ (۳)حضرت داؤد طائی ؒ (۴)حضرت جنید بغدادیؒ (۵)حضرت عبیداللہ احرار ؒ (۶)حضر ت عبدالرحمن جامیؒ (۷)حضر ت ابو ایوب محمدصالح ؒ (۸)حضر ت سلطان العارفین اللہ دین مدنی ؒ (۹)حضرت اللہ یار خان ؒ ۔
اویسی طریقہ پر اخذِفیض کیلئے حضر ت ؒ نے فرمایا کہ ہر لطیفہ کے ذکر کے وقت یہی لطیفہ اپنے مرشد کا اور مرشد کے مرشد کا یہانتک کہ آنحضرت محمدﷺ تک اسطرح خیال کرے جیسا کہ گویا اپنے لطیفہ کے سامنے دوسرے آئینے رکھے ہوئے ہیں جن سے اس کا لطیفہ فیض اخذ کرتاہے ۔ فرمایا کہ حجۃاللہ البالغہ میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے اویسی طرز پر کسبِ فیض کا یہی طریقہ لکھا ہے جن کا دعوٰی ہے کہ برصغیر میں وہ پہلے اویسی ہیں۔
وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہ وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْن(۸)(الصف پارہ ۲۸)۔ اللہ اپنا نور پھیلا کر ہی رہے گا چاہے نہ ماننے والوں کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔تمہارا کیا خیال ہے کہ پیغمبر برزخ سدھار گئے تو اب حصولِ فیض کی چھٹی ہو گئی۔ اللہ کے بندوں کا پیغمبر سے ہمیشہ رابطہ رہتا ہے اور وہ لوگوں کے قلوب کو مسلسل سیراب کرتے رہتے ہیں۔ روئے زمین کے مومنین کے قلوب حضرت محمدﷺ کے قلب اطہر سے باریک باریک تاروں کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔ اور انہیں اپنے ظرف کے مطابق فیض پہنچتا رہتا ہے جیسے جیسے ان کی اپنے پیغمبر ﷺ سے محبت بڑھتی جاتی ہے ایسے ایسے یہ تار مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ اگر بندے کی تار جڑی ہوئی ہے تو وہ ایمان پر ہے اور اگریہ ٹوٹ گئی تو وہ بے ایمان ہو گیا پھر تو اس کی عبادت بھی بے معنی ہو جاتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد اولاد ،رشتہ دار اور دوست احباب کی طرف سے بھیجا ہوا ثواب بھی اس تک نہیں پہنچتا کوئی اس کو لطائف کرانا چاہے تو اسے فائدہ نہیں ہوتا وہ بدبخت محروم ہی رہتا ہے اخذِفیض کے لیے پہلا سبق لطائف ہیں قلب، روح، سری، خفی، اخفٰی، نفس اور سلطان الاذ کار۔ جب لطائف منور ہو جائیں تو روح کے اندر پرواز کی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور یوں وہ مراقبات ثلاثہ کے منازل طے کرنے کی طرف بڑھتا ہے۔سدرۃالمنتہیٰ سے تحت الثریٰ تک عالم خلق ہے۔ زمین سے سدرۃالمنتہیٰ تک کی بلندی کو تین برابر برابر حصوں میں بانٹ دیں تو سب سے نیچے والے حصے کو احدیت کہتے ہیں جس کی مسافت پچاس ہزار سال ہے۔ درمیانی حصے کو معیت کہتے ہیں۔ یہ بھی پچاس ہزار سال کی مسافت ہے۔ سب سے اوپر والے حصے کو اقربیت کہتے ہیں۔اس کو بھی عبور کرنے کے لیے گھوڑا سرپٹ دوڑتا رہے تو اسے پچاس ہزار سال لگیں گے۔احدیت کے انوارات سفید ،معیت کے سبز اور اقربیت کے انوارات سرخ یاقوتی ہیں۔چالیس سال پرانی بات ہے ماہِ رمضان کا آخری عشرہ تھا۔ ہم لوگوں نے شب بیداری کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ میں نے دادا مرشد سے درخواست کی کہ وہ ہمیں احدیت’’ سلوموشن‘‘ میں طے کرائیں ہم تمام تفصیلات سے آگاہی حاصل کرنا چاہتے تھے انہوں نے ہمیں اپنے پاس بٹھا لیا اور احدیت پر سلو سلو چلاناشروع کیا ہم نے ایک کشف والے ساتھی کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ مسلسل کمنٹری کرتا رہے جو دیکھے وہ ہمیں بتائے۔ رات کے دو بجے تک ہم احدیت پر چلتے رہے۔ ہم نے سحر ی کا بندوبست بھی کرنا تھا۔اس لیے دادا مرشد سے پوچھاکہ ابھی احدیت اورکتنی باقی ہے فرمانے لگے کہ ابھی تو ایک تہائی بھی ختم نہیں ہوئی۔یوں ہمیں احدیت کو نامکمل چھوڑ کے اٹھنا پڑا۔
مجھے نظر آنے والے لطائف کے رنگ یہ ہیں۔ قلب کا سرخ ،روح کا گولڈن، سری کا نیلگوں، خفی کا سلور سفید اور اخفیٰ کا سبز۔ جو لطیفہ زیادہ منور ہو جاتا ہے اس کا رنگ زیادہ سامنے آتا رہتا ہے۔پھر جس پیغیمبر کا آدمی ہم مشرب بن جاتاہے اس پیغیمبرکے معجزات کرامات کی صورت میں اس آدمی سے ظاہر ہو سکتی ہیں۔قلب کی نسبت حضرت آدم علیہ السلام سے ہے۔روح کی حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سری کی حضرت موسیٰ اور خفی کی حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ہے۔حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ہم مشرب شخص کا سانس شفا کا سبب بن جاتا ہے کوڑھ پھوڑے پھنسیاں اس کی پھونک سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اخفیٰ کی نسبت نبی اکرمﷺ کی طرف ہے آپ کا ہم مشرب فقر سے دو چار رہتا ہے۔پیسے کو کبھی دل میں جگہ نہیں دیتا۔
گدی نشینوں کو تو سلوک کا پتہ بھی نہیں۔وہ سال کے سال قبر پرعرس کا اہتمام کر لیتے ہیں جہاں نعت قوالی اور دیگوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔حضرت داتا علی ہجویری کے عرس کے موقع پر ان سے روحانی کلام کا موقع ملا۔فرمانے لگے کہ میرے عرس کے موقع پر یہ ہزاروں لوگ جو آتے ہیں ان میں آدھے تو انسانی شکل پر نہیں ہوتے ان کی روحانی شکلیں بگڑی ہوتی ہیں۔باقی آدھے جنب کی حالت میں ہوتے ہیں ان کو صحیح غسل کا طریقہ نہیں آتا۔باقی ماندہ ایسی حاجات لے کرآتے ہیں جن کیلئے ہاتھ اٹھانے کو دل نہیں کرتا۔میں ساری زندگی جو کچھ کما کر لایا ہوں وہ لینے کوئی نہیں آتا ۔پھر ہر جسم سے یا انوارات باہر آتے(emit ہوتے )ہیں یا سیاہی اور نحوست۔اسطرح زائرین نحوست کے انبار چھوڑ جاتے ہیں چونکہ دارالعمل سے میر ارابطہ منقطع ہو چکا ہے اس لئے ان کی نحوست سے مجھے ایذا پہنچتی ہے کیونکہ آپ لوگوں کی طرح ذکر کر کے میں اس نحوست کو ختم نہیں کر سکتا۔ کوئی یہاں آکر لطائف کرے تو صفائی بھی ہو۔ جس کا میں شدت سے انتظار کرتا ہوں کاش آپ کے شیخ کی طرح میری بھی جماعت ہوتی جو روزانہ میری قبر پر بیٹھ کر لطائف کرتی اور ماحول کو منور کرتی۔
ایک دفعہ پیر محل سے گزرنے کا اتفاق ہوا یہاں’ کا نوائے‘ کا ہالٹ تھا۔ سامنے ایک خوبصورت گھر تھا جس میں سے ایک کلین شیو قیمتی لباس زیب تن کیے ہوئے ایک شخص میرے پاس آیا اور چائے کی دعوت دی۔وہ چونکہ بہت اصرار کر رہا تھا اس لیے ہم اس کے گھر چلے گئے ۔اس نے بتایا کہ وہ جدی پشتی پیر ہے اور پیر محل کا نام بھی اسی کے آباؤ اجداد کی وجہ سے پڑا ہے۔اس کے باپ دادا اور پردادا کی تصویریں بھی کمرے میں آویزاں تھیں۔جو سب داڑھی کے بغیر تھے۔ پھر اس نے بتایا کہ ان کے لاکھوں کی تعداد میں مرید ہیں۔میں دفعتاً بول پڑا کہ کیا آپ لطائف بھی کراتے ہیں تو کہنے لگا کہ نہیں ہم عرس کراتے ہیں۔ میری ہنسی نکل گئی کہ باقی گدی نشینوں کی طرح اس کو بھی لطائف کا پتہ نہیں۔ یہ سمجھا کہ لطائف عرس قسم کی چیز ہو گی۔ ان لوگوں نے اپنے مریدوں کو بولا ہوا ہے کہ خالی آؤ گے تو خالی جاؤ گے۔ پھر جو رسی پکڑ کے منت کا جانور لے کے آئے گا وہ مالا مال ہو کر جائے گا۔ اس طرح عرس پر سینکڑوں منت کے جانور اکٹھے ہو جاتے ہیں جن کی عرس سے اگلے دن منڈی لگتی ہے اور ان کو بیچ کر پیر صاحب کا سال کا بجٹ بنتا ہے۔ یوں مریدوں کے پیسے سے پیران کرام اپنی کروڑوں کی جائداد یں بناتے ہیں اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر عقیدت مندوں کا استحصال کرنے میں مصروف ہیں۔
لوگوں کے رویے سے خالقِ کائنات بھی شاکی ہے۔ قرآن کریم میں دو جگہ فرمایا مَاقَدَرُوْ اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۔ لوگوں نے میری ایسی قدر نہیں کی جیسی ان کو کرنا چاہئے تھی۔ اللہ فرماتاہے وَاذْکُرِاسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلَا (۲۵)( دہر رکوع ۱۹ )میرے نام کا ذکر کر صبح اور شام۔ مگر لوگ ہیں کہ اللہ کی یاد سے بے نیاز اور لاتعلق ہیں۔ان کی اس بے حسی پر اللہ تعالیٰ بھی بول اٹھا فرمایا کہ لوگوں نے مجھے ویسا یاد نہ کیا جیسا یاد کئے جانے کا میرا حق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جب موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر اسے ظلم سے روکو تو ان کے دل میں خیال آیا کہ بیوی کا کیا بنے گا جس کو وہ چھوڑآئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھاکہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے کہا کہ چھڑی۔فرمایا اس کو سامنے پڑی ہوئی چٹان پر مارو۔ چٹان پر اسے مارا تو چٹان ریز ہ ریزہ ہو گئی۔اس میں سے ایک چٹان اور نکل آئی فرمایا اس پر بھی مارو اس پر مارا تو یہ چٹان بھی ریزہ ریزہ ہو گئی اور اس میں سے ایک اور چٹان نکلی فرمایا اس پر بھی مارو۔ جب اس چٹان پر چھڑی ماری تو یہ بھی ریزہ ریزہ ہو گئی اور اس میں سے ایک جانور نکلا جس کے منہ میں سبز پتہ تھا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ جب میں اسے رزق دے سکتا ہوں تو کیا تمہار ابیوی بچہ میری دسترس سے باہر ہے۔فرمایا اِذْھَبْ اَنْتَ وَاَخُوْکَ بِاٰیَاتیِ وَلَاتَنِیَا فِیْ ذِکْرِیْ جاتُو اور تیرا بھائی میری نشانیوں (معجزات )کے ساتھ اور میری یاد میں کوتاہی نہ کرنا۔ایک اور جگہ بھی اللہ اپنے بندوں کا شکوہ کرتاہے۔فرمایا
English
With Idols You Have Hopes
Major (Retd) Ghulam Muhammad
قَدْیَءِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ کَمَایَءِسَ اْلکُفَّارُ مِنْ اَصْحَابِ اْلقُبْوُرِ
They have despaired of [reward in] the Hereafter just as the disbelievers have despaired of [meeting] the inhabitants of the graves [60:13].
What hope can one associate with the people in the graves? After passing away, they cannot act like living people anymore. They are in Barzakh now, where the spirit is active and the body is inactive. The spirit is subtle, subtler than the angels, because it has been created from the angle's breath, and the angels are created from Light. Hearing, seeing and speaking are among the characteristics of the spirit. The author of Jam'e Asool al-Aulia writes that Ali Al-QarshiRehmatullah Alaih has said that he has seen four saints act like living beings inside their graves. (1) Shaykh Abdul QadirRA (2) Shaykh Ma'roof KarkhiRA (3) Shaykh Aqeel ManijiRA (4) Shaykh Hayat bin QaisRA. Shaykh Abdul Haq Muaddis DehlviRA has also mentioned them in his Persian commentary on Mishkat "Al-Mauta wa-al-Qaboor".
Abu Bashar HaafiRA narrates that he entered his house once and saw a tall man praying there. He says that he was frightened, because the key to the door was with him. That person completed his Namaz and said, "do not be afraid. I'm your brother Khizr". He asked him (Hazrat Khizr) to teach him something because of which Allah would benefit him. So, he said: "say that I seek forgiveness from Almighty Allah, and repent before Him for every sin that I again committed after repentance[1]. And I seek forgiveness from Almighty Allah, and repent before Him for each of those promises that I made to myself for Allah's sake, and then broke them. And I seek forgiveness from Almighty Allah, and repent before Him for each of the bounties that he bestowed upon me all my life, and I utilized it for disobeying Him".
Ahmed bin Abi Al-HawariRA says that KhizrAlaih as-Salam taught him a prayer for relieving pain, and said that whenever he feels pain anywhere in the body he should place his hand on that place and recite:
وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَبِالحَقِّ نَزَلَ ط(Bani-Israil 105)
"So, I always recite this and blow where I'm feeling the pain, and it's immediately relieved."
The majority of the Ulema and Jurisprudent Muhaddiseen[2] believe in Tawassal[3]. So, if a person says in his prayer like this: "O God, please fulfill my such and such need for the regard of such and such person, or with reference to such and such person, or because of such and such person", there's nothing wrong with praying like this. It is allowed and is a Neutral Act[4]. Reciting the Darood Shareef is also a type of Tawassul. Hazrat Saadi'sRehmatullah Alaih "O God, for the sake of Bani Fatima" is commonly recited, that 'O Allah, for the sake of Hazrat Fatima'Razi Allah Anhu progeny may I die a faithful!' It is written on page 47 of Qaida Jaleelia that adopting the Waseela of the ProphetSall-Allahu-alaih-Wasallam after his demise has precedence from the CompanionsRazi Allah Anhu, Tabaeen, and Imam Ahmed bin HanbalRehmatullah Alaih.
One should do the Twassul once a day, and the best time for doing it is after the Tahajjud. If one can do it twice in a day, it's even better. The way to do it is to recite Surah Fateha once and Surah Ikhlas thrice, and then say, "O God, whatever I have recited, please send its reward to the exalted spirit of HuzoorSall-Allahu-alaih-Wasallam, and to the spirits of all the Prophets and Messengers, and to Your dear angels, and to the Sahaba, and to the Tabaeen Aulia[5] and Saliheen[6], and especially to the spirits of the people of Naqshbandia Awaisia.
The Murshed is doubtlessly a means[7] to reach Allah. Allah SWT has decreed: O those who have embraced the Faith, fear Allah and search for the means to reach Him (Al-Ma'ida).
یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آٰمَنُوْ ااتَّقُوْا اللہ وَاْبتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَہ
Hazrat Shah Abdul Aziz Muhaddis Dehlvi says that the way to seek (Allah's) help is that the needy person asks Allah SWT to fulfill his need with reference to the spirituality of someone who is dear to Him, someone who is closer to Him and more elevated in that sense. And the needy person says: "O man of God, O Friend of Allah, please intercede for me and ask Allah SWT to give me what I need, so that He may satisfy my need." The person being asked is merely a Waseela or interceder. Only the Almighty is the Giver and the Authority. Tawassul is permissible through the agreement of the Jurispruders. How, then, can Tawassul become prohibited after death? Because, the spirits of the Accomplished act after death just like they act in this world. This subject has been discussed in detail in Shrah Mishkat, and in Shrah Sadoor by Allama SyutiRehmatullah Alaih[8].
I person visited the Caliph Hazrat Usman bin AffanRazi Allah Anhu at different times for some matter, but Hazrat UsmanRAA did not respond warmly towards him. That person met Hazrat Usman bin HaneefRAA to ask for a solution to this situation. Hazrat Usman bin HaneefRAA is the eyewitness of the incident, when a blind person had come to Huzoor Sall-Allahu-alaih-Wasallam and begged for his eyesight. Upon his insistence, the ProphetS-A-W had told him to recite with him:
اَللّٰہُمَّ اِنّیِ اَسْءَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِی محمدنَبِیِ الرَّحْمَۃ یَامحمد اِنِّی اَتَوَجَّہُ اِلٰی رَبِّی بِکَ اَنْ یَّکْشِفْ لِی عَنْ بَصَرِی اَللّٰہُمَّ شَفَعَہٗ فِی وَشَفَعَنِی فِی نَفْسِی
Upon reciting this, Allah SWT returned him his eyesight. Imam Tirmzi has reported this Hadees in his book. Hazrat Usman bin HaneefRazi Allah Anhu told that person to go to the ablution place and do the Wazu, offer two rounds of Salat-e-Hajat[9]in the mosque, and then pray like this:
اَللّٰہُمَّ اِنّیْ اَسْءَلُکَ وَاَتَوَ جَّہُ اِلَیْکَ بِِنبَِِیْ مُحمّد صلی اللہُ علیہ وسلم نَبی الرَّحْمَۃ یامحمّدصلی اللہُ عَلَیْہ وسلم اِنَّی اَتَوَجَّہُ اِلٰی رَبِّی بِکَ فَیَقْضِی حَا جَتِیْ۔
(O Allah, I ask of You, and to you I present as my interceder my ProphetSall-Allahu-alaih-Wasallam, who is the Prophet of Rahmat, that my need may be fulfilled.)
"After that, mention your need, and then come to me," said Hazrat Usman bin HaneefRazi Allah Anhu. Shaykh Abdul Qadir Jilani'sRehmatullah Alaih saying on page 337 of Balghtul Hairan, "call me in times of distress", has been explained to mean that "Azkurni, or "call me" implies to pray with the Saykh's Waseela.
According to the above-referred Ayat of the Quran الکُفَّارُمِنْ اَصْحَابِ الْقُبُورonly the non-believers can deny the drawing of Faiz from the people of the graves. The very basis of the Awasia Silsila is that it is aimed at connecting with the person in the grave to extract or impart Faiz. If you are not linked to the people in the Barzakh and don’t have the capability to acquire the Faiz from, and impart it to, the people of the graves, then you are not an Awaisi. The last Shaykh of Silsila Naqshbandia Awaisia Hazrat Maulana Allah Yar KhanRehmatullah Alaih used to train his disciples spiritually and present them before the Holy ProphetSall-Allahu-alaih-Wasallam for the Spiritual Baet. Hundreds of people benefited from the Spiritual Baet, and are still getting this blessing due to our Shaykh.
Hazrat Shah Ismail Shaheed has written in "Abqaat" that each Sajda of a holder of the Station of Fana-Baqa is superior to one hundred years of worship, or even one hundred thousand years of worship by others. The criterion for the superiority of this Sajda is not knowledge or intellect, excess of worship or Zikr. Rather, it is an act of bestowment, through which Allah the Most High shines His Light upon these people's Hearts, because of which they become worthy of such qualities.
[Urdu Verse]
That Faqeer is better than Darius and Alexander
Whose Faqeeri carries the scent of Asadullah[10]
The Qadri, Chishti and Suhrwardi Sisilas flow from Hazrat AliRAA, whereas Silsila Naqshbandia flows from Hazrat Abu Bakr SiddiqRAA. Hazrat Hassan Basri is a common figure in all the Sisilas. Silsila Naqshbandia Awaisia is as follows: Hazrat MuhammadSall-Allahu-alaih-Wasallam, (1) Hazrat Abu Bakr SiddiqRAA (2) Hazrat Hassan BasriRAA (3) Hazrat Daood TaiRA (4) Hazrat Junaid BaghdadiRA (5) Hazrat Obaidullah AhraarRA (6) Hazrat Abdur Rahman JamiRA (7) Hazrat Abu Ayub Muhammad SalehRA (8)Hazrat Sultan-ul-Arifeen Allah Deen MadniRA (9) Hazrat Allah Yar KhanRA
HazratRA said that in order to extract Faiz with the Awaisi Method, one should think as if each Lateefa (that he is doing) is placed before his Murshed's Lateefa, which is placed before the same Lateefa of his Murshed, until the chain reaches Hazrat MuhammadS-A-W, as if mirrors are placed before his Lateefa, from which his Lateefa is acquiring the Faiz. He said that Hazrat Shah WaliullahRA has described the same Method for drawing Faiz the Awaisi way in his book "Hujjatullahil Balighah". Hazrat Shah WaliullahRA claims to be the first Awaisi in the Subcontinent.
وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہ وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْن
"Allah shall spread His Light, however the disbelievers may detest it." [As-Saff Chapter 28, Ayat 8]
What do you think, that the acquisition of the Faiz is over after the demise of the ProphetS-A-W ? The people of Allah are always connected to the Prophet, and they always keep supplying the nourishment to people's Hearts. The Hearts of the believers around the world are connected to Hazrat Muhammad'sS-A-W sacred Heart through thin cords, and receive the Faiz according to their capacity. As their love for the ProphetS-A-W keeps growing, the cord keeps getting stronger. If this cord is connected, the person is on the True Faith; and if the cord breaks, the person has lost his Faith. In the latter case, his worship also becomes meaningless. After he dies, the blessings sent by his family and friends do not reach him. If someone wants to conduct Lata-if on him, he is not benefitted, and that unlucky person remains deprived.
The Lata-if are the first lesson for the acquisition of the Faiz. These are the Qalb, Rooh, Sirri, Khaffi, Akhfa, Nafs, and Sultan-ul-Azkaar. When the Lata-if start shining, the spirit gets the power to fly, and it cruises through the Stations of the Triple Meditations. The space between the Teht-us-Sira and Sidrat-ul-Muntaha is the Realm of the Creation[11]. If the height from the earth to the Sidrat-ul-Muntaha is divided into three equal segments, the lowest portion is known as the Ahdiyat, the journey through which spans over fifty thousand years. The middle portion is known as Maeeyat, which is also a distance of fifty thousand years. The upper portion is known as Aqrabiyyat, to cross which it takes another fifty thousand years on a galloping horse. The Lights of Ahdiyyat are white in color, and the Lights of the Maeeyat and the Aqrabiyyat are green and deep-red.
It was some 40 years ago. It was the last 10 days of the month of Ramzan and we had planned to stay awake through the night. I requested our grand-Murshed to take us through the Ahdiyyat in slow motion, because we wanted to know all the details. He seated us by his side and started taking us through the Ahdiyyat slowly. We had deputed a person who had Kashaf to do a running commentary and narrate to us whatever he saw. We kept cruising through Ahdiyyat till 2 am. We had to arrange for the Sehri[12] too, so we asked the grand-Murshed how much of Ahdiyyat was still left. He said that we had not even seen one-third of it yet. Hence, we had to get up with Ahdiyyat still unfinished.
The colors of the Lata-if that I see are as follows. The color of the Qalb is red, the Rooh is golden, the Sirri is bluish, the Khaffi is silver-white, and the Akhfa is green. The color of Latifa that is brighter than the others becomes more dominant. Then, the miracles of the Prophet with whom a seeker gets connected issue forth from him as Karamaat[13]. The Qalb is related to Hazrat AdamAlaih as-Salam. The Rooh is related to Hazrat NoohAS and Hazrat IbraheemAS. The Sirri is related to Hazrat MoosaAS and the Khaffi to Hazrat EesaAS. The breath of the person connected to Hazrat Eesa Alaih Salam becomes a cure, and he can heal Leprosy, abscesses and pustules by blowing on them. The Akhfa is related to Nabi AkramSall-Allahu-alaih-Wasallam. The person spiritually connected to him lives in Fuqr[14]. He never lets (love of) money enter into his heart.
The Gaddi Nasheens[15] know nothing about Salook. They merely arrange the Urs[16] every year at the grave, where nothing is to be found except Naat[17], Qawwali[18] and big pots of food. I had the opportunity to converse spiritually with Hazrat Data Ali Hajveri on the occasion of his Urs. He said, "out of these thousands of people who come to attend my Urs, more than half are not having human appearances. Their spiritual faces are distorted. Most of the other half is in a state of filthiness. They don’t know the correct way to take a bath[19]. The rest of them come with the kind of needs that I don’t feel like praying for them. No one comes to take my life's earnings that I've brought with me here. Then, every person's body either emits Lights, or it emits blackness and darkness. Hence, the pilgrims leave behind piles of darkness. Because I've been disconnected from the Place of Actions[20], I cannot dispel this darkness by doing Zikr like you, and it bothers me. I wait anxiously for someone to come and do the Lata-if here, so that that darkness may be cleaned. I wish I had a Jamaat like your Shaykh, which would do the Lata-if on my grave everyday and light up the environment".
Once I happened to pass by Peer Mahal, where my convoy had halted. There was a beautiful house right in front, from which an affluently dressed, clean-shaven person came out and invited us for tea. We went to his house because he insisted. He told us that he is a Peer by lineage and the town was named Peer Mahal because of his ancestors. The photographs of his father, grandfather and great grandfathers were hanging on a wall. All of them were without beards. He then told us that their followers numbered into hundreds of thousands. I asked him spontaneously, "do you conduct Lata-if?" "No," he said, "we conduct Urs[21]". I could not control my laughter. Like other Gaddi-Nasheens, he too had no clue about the Lata-if. He thought it must be a type of Urs. Such people have told their followers, "If you come empty handed, you'll return empty handed". Whoever comes holding a rope with a cow or sheep on the other end will return with his heart's desires. Hundreds of cattle are thus collected during the Urs, which are sold in the market held right after the Urs and the Peer Sahib's budget for the next year is prepared. Hence the so called Peers use their followers' money to accumulate properties worth millions of dollars. They are busy exploiting their disciples with both hands.
The Creator of the Universe is also aggrieved by such people's behavior. He says twice in the Quran:
مَاقَدَرُوْ اللہُ حَقَّ قَدْرِہ
"People did not value Me as they should've." Allah also says:
وَاذْکُرِاسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلَا (۲۵)( دہر رکوع ۱۹
Remember My Name in the morning and in the evening (Dahr 25).
But people are oblivious to and uninterested in Allah's remembrance. Even Allah took notice of their heartlessness and said: People did not remember Me like I was supposed to be remembered. When Allah SWT ordered Hazrat MoosaAlaih as-Salam to go to the Pharaoh and stop him from tyranny, he became worried about his wife whom he had left behind. Allah SWT asked MoosaAlaih as-Salam what was in his hand. He replied that it was his staff. Allah asked him to hit the rock that was lying before him. When he hit it, it broke into particles and another rock emerged from it. Allah asked him to hit it too. When he hit the second rock, it also disintegrated into dust and another rock emerged from it. Allah asked him to hit it too. When he hit it with his staff, it also disintegrated and a living creature emerged, which had a green leaf in its mouth. Allah SWT said to Hazrat MoosaAlaih as-Salam that when He could arrange for this creature's provisions (inside the three rocks), were his wife and kid beyond Allah's reach? Allah said:
اِذْھَبْ اَنْتَ وَاَخُوْکَ بِاٰیَاتیِ وَلَاتَنِیَا فِیْ ذِکْرِیْ
"Go forth, you and your brother, with My Signs, and do not slacken in My remembrance." Allah has also complained about his people at another place. He says:
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْ بُھُمْ لِذِکْرِاللہ
"Is it not time yet that the hearts of the faithful become subdued with Allah's Zikr?" [al-Hadeed 16]