Articles

My Head is Bowed...| سرِ تسلیمِ خم ہے

My Head is Bowed...| سرِ تسلیمِ خم ہے

Urdu

سر تسلیم خم ہے 
میجر ریٹائرڈ غلام محمد

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَنْعَمَ عَلَیْنَا وَھَدٰنَا اِلٰی دِیْنِ اْلِاْسْلَام۔اللہ رب العزت کا فرمان ہے:اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًاو مُبَشِّراً ونَذِیْراًO وَّ دَاعِیاًاِلَی اللہِ بِاذْنِہٖٖ وَسِرَاجاً مُنِیْراً(۴۶)(پارہ ۲۲ الاحزاب)
ترجمہ:( ہم نے آپ کو بلاشبہ گواہی دینے والا اور جنت کی خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور روشن کرنے والا چراغ بنایا ہے )۔
 
یہاں رسول اللہ ﷺ کی پانچ صفات کا ذکر فرمایا۔ شاہد، مبشر، نذیر، داعی الی اللہ اور سراج منیر۔ شاہد سے مراد یہ ہے کہ آپ قیامت کے روز امت کے لیے شہادت دیں گے۔ جیسا کہ صحیح بخاری ، نسائی، ترمذی وغیرہ میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے ایک طویل حدیث روایت ہے جس کے بعض جملے یہ ہیں کہ قیامت کے روز نوح علیہ السلام پیش ہوں گے تو ان سے سوال کیا جائے گا کہ کیا آپ نے ہمارا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا۔ وہ عرض کریں گے کہ میں نے پہنچادیا تھا پھر ان کی امت پیش ہوگی وہ اس سے انکار کرے گی۔ اس وقت حضرت نوح علیہ السلام سے پوچھا جائے گاکہ آپ جو دعویٰ کرتے ہیں پیغام حق پہچانے کا اس پر آپ کا کوئی شاہد بھی ہے۔ وہ عرض کریں گے کہ محمدﷺ اور ان کی امت گواہ ہے۔ امت نوح علیہ السلام ان پر جرح کرے گی کہ یہ کیسے گواہی دے سکتے ہیں یہ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اس کا جواب امت محمدیہ سے پوچھا جائے گا وہ یہ جواب دے گی کہ بیشک ہم اس وقت موجود نہیں تھے مگر ہم نے اس کی خبر اپنے رسولﷺ سے سنی تھی جس پر ہمارا ایمان و اعتقاد ہے۔ اس وقت رسول اللہﷺ سے آپ کی امت کے اس قول کی تصدیق کے لیے شہادت لی جائے گی۔ رسول اللہﷺ اپنی شہادت کے ذریعے اپنی امت کی تصدیق و توثیق فرمائیں گے۔
 
حقیقت یہ ہے کہ امت کے اعمال رسول اللہﷺ کے سامنے ہر روز صبح و شام پیش ہوتے ہیں۔ اسی لیے قیامت کے روز آپﷺ امت کے شاہد بنائے جائیں گے (رواہ ابن المبارک عن سعید بن المسیب‘ مظہری) امت کے اعمال تھری ڈائمنشن میں ری پلے ہوتے ہیں ورنہ لکھے ہوئے اعمال کو ایک وقت میں دیکھنا پڑھنا عقلاً محال ہے سٹلائٹ ری پلے کر سکتا ہے تو کیا اللہ اپنے پیغمبر کے لیے ایسا نہیں کر سکتا۔ اسی طرح دعوت کا کام سخت دشوار ہے۔ وہ اللہ کے اذن اور اعانت کے بغیر انسان کے بس میں نہیں آنحضرتﷺ کی بیان کردہ صفت کہ آپ روشن کرنے والے چراغ ہیں حضرت قاضی ثناء اللہ ؒ نے تفسیر مظہری میں فرمایا کہ آپﷺ کی صفت داعی الی اللہ ظاہر اور زبان کے اعتبار سے ہے اور سراج منیر کی صفت آپ کے قلب مبارک کے اعتبار سے ہے۔ جس طرح آفتاب سے سارا عالم روشنی حاصل کر تاہے اسی طرح تمام مومنین کے قلوب آپ کے نور قلب سے منور ہوتے ہیں۔ اسی لیے صحابہ کرام جنہوں نے آپﷺ کی صحبت پائی وہ ساری امت سے افضل ہیں کیونکہ ان کے قلوب نے نبی کریمﷺ کے قلب اطہر سے بلاواسطہ فیض اور نور حاصل کیا جبکہ باقی امت کو یہ نور صحابہ کرام کے واسطے سے واسطہ در واسطہ سینہ بسینہ پہنچا۔ یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہﷺ اور تمام انبیاء ؑ اس دنیا سے گزرنے کے بعد اپنی قبروں میں زندہ حیات ہیں اس حیات کی وجہ سے قیامت تک مومنین کے قلوب آپ کے قلب اطہر سے استفاضۂ نور کرتے رہیں گے اور جو جتنی محبت و تعظیم اور درود شریف کا زیادہ اہتمام کرے گا وہ اس نور کا زیادہ حصہ پائے گا۔ 

پچھلے کچھ سالوں سے روشن خیالی (Enlightened moderation) کا بڑا چرچا ہے اور مذہبی شدت پسندی ساری دنیا کے نشانے پر ہے یعنی حضورﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی سوفیصد تقلید اب شدت پسندی میں شمار ہونے لگی ہے۔قران مجید کی چند آیات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا ط اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر (۱۱۲) 
ترجمہ : آپ مستقیم رہیں جیسا کہ آپ کو مستقیم رہنے کا حکم ہے اور وہ لوگ بھی مستقیم رہیں جو توبہ کے بعد آپ کی معیت میں ہیں اور ذرہ برابر اِدھرُ ادھر نہیں ہونا بیشک اللہ دیکھتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (پارہ ۱۲ سورہ ہود ، رکوع ۱۰) 
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُواْ رَ بُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَا مُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰءِکَۃُ 
ترجمہ : بیشک جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اتریں گے (پارہ ۲۴ رکوع ۱۸،آیت۳۰ )
لَاتَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖ اَزْوَاجاً مِّنْھُمْ
ترجمہ: آپ اپنی آنکھ اٹھا کر بھی ان چیزوں کو نہ دیکھیں جو ہم نے کافروں کو عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے لیے دے رکھی ہیں۔ (پارہ ۱۴ رکوع ۶ اور پارہ ۱۶ رکوع ۱۶) 
وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُریٰٓ اٰمَنُوْ وَاتَّقَوْاْ لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْض(۹۶) (پارہ ۹ رکوع ۲ الاعراف) 
ترجمہ: اگر بستی والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے۔ یعنی جب تک آپ متقی اور مومن پرہیز گار نہیں بنتے، آپ پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے نہیں کھلیں گے۔ 

ان آیات کے مطالعے کے بعدآپ خود سوچیں کہ ماڈریشن اور روشن خیالی کو کوئی کیسے اپنا سکتا ہے ماڈریشن میں تو پیغمبر اور صحابہ کی تقلید نہیں بلکہ مغرب کے معاشرے کی تقلید کرنا پڑتی ہے۔بندہ بابو بنے۔ دل کرے تو نماز پڑھ لے دل کرے تو نہ پڑھے۔ روزہ رکھے نہ رکھے داڑھی اگر رکھے بھی تو غامدی جیسی۔ روشن خیال پیر بھی بہت مل جاتے ہیں جو سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتے۔ ان سے پوچھا جائے تو فرماتے ہیں ’’ تہاڈی پنج ویلے تے میری ہر ویلے‘‘۔ اس طرح کے ایک پیر’’ بابا جی‘‘ سے جھلم میں میری ملاقات ہوئی جو وضع قطع میں بابا جی لگتے ہی نہیں تھے۔ جب ان سے پوچھا کہ آپ کو ولایت کیسے ملی تو کہنے لگے کہ میں اٹھارہ برس کا تھا ایک روز چھت پر تھا کہ پیران پیر صاحب آئے اور سب کچھ انڈیل گئے۔ ساری عمر بینک کی نوکری کی اب بیوروکریٹس کے پیر ہیں۔ چھڑی پھیرتے ہیں اور تکلیف بیماری کو بھگاتے ہیں۔ مجھے بتایا کہ میں نے پاکستان سنبھالا ہو اہے جبکہ میرے بھائی نے ہندوستان کی ڈیوٹی لی ہوئی ہے۔ کہا کہ بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ بس میرا یہ جھونپڑا ہے اور ایک سی این جی اسٹیشن ہے۔ جس کمپلیکس کو وہ جھونپڑا کہ رہا تھا وہ کروڑ ڈیڑھ کروڑ مالیت کا ہوگا اور سنا ہے کہ سی این جی سٹیشن دس بارہ کروڑ سے کم میں نہیں چلتا۔ میں وہاں ظہر سے لے کر عشاء تک رہا انہوں نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔ کرنل عظمت نے بتایا کہ یہ کہتا ہے ’’ تہاڈی پنج ویلے تے میری ہر ویلے‘‘ یعنی یہ ہر وقت حالت نماز میں رہتا ہے۔ ائر کموڈور فضل محمود ان سب باتوں کا چشم دید گواہ ہے۔ 

جن مغربی آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر ہم نے اپنے رسول اللہﷺ کی تقلید سے منہ موڑ رکھا ہے اور ان سے عزت کی توقع پر دوستی کر رکھی ہے وہ خود پٹ رہے ہیں وہ بھلا کسی کو کیا عزت دیں گے۔ قرآن کریم کی ایک آیت اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْ فَعُہٗ میں اللہ تعالی سے عزت وقوت حاصل کرنے کا طریقہ بتلایا گیا ہے جس کے دو اجزاء ہیں ایک کلمہ طیبہ یعنی کلمہ توحید اور اللہ کی ذات و صفات کا علم اور دوسرا عمل صالح یعنی شریعت پر عمل کرنا۔

حضرت شاہ عبدالقادرؒ نے موضح القرآن میں فرمایا کہ حصول عزت کا یہ نسخہ بالکل صحیح و مجرب ہے شرط یہ ہے کہ ذکر اللہ اور عمل صالح پر مداومت ہو۔ یہ مداومت جب ایک حد مقرر پر پہنچ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے کرنے والے کو دنیا و آخرت میں وہ لازوال عزت نصیب فرماتے ہیں جس کی نظیر نہیں ملتی حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کلمہ توحید اور تسبیحات بغیر عمل صالح کے کافی نہیں اسی طرح عمل صالح بھی بغیر کثرت ذکر اللہ کے بے رونق رہتا ہے۔ ذکر اللہ کی کثرت ہی اعمال صالحہ کو مزین کر کے قابل قبول بناتی ہے۔ 

بات ادھر ختم نہیں ہوتی میرے اللہ نے اپنے پیغمبر کو کہا فاعرض عن من تولیّٰ عن ذکرنا و لم یرد الَّا الحیٰوۃَ الدُّنیاکہ آپ اس شخص سے منہ موڑ لو جو ذکر سے روگردانی کرے اور جس کا سوائے حصول دنیا کے اور کوئی مقصد حیات نہ رہے۔ یہ جو چھوٹ ہے نا ’’ کُلُو اْ وَاشْرَبُوْا‘‘ والی یہ عوام الناس کے لیے ہے۔ جو قرب الہی کے راستے پر چلا اور ولایت کو اوڑھنا بچھونا بنایا، اس کے لیے ساری رخصتیں ختم ہو جاتی ہیں پھر اللہ دیکھتا ہے کہ کون میرے ساتھ ہے اور کون حظِ نفس کے ساتھ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے کہا کہ کئی دن ہوگئے تھے کہ میں نے کچھ نہیں کھایا تھا ایک آدمی مجھے ملا اس نے مجھے ایک تھیلی دی جس میں درہم تھے۔ چنانچہ میں نے میدے کی روٹیاں اور کھجوروں کا حلوہ خریدا اور کھانے کو بیٹھا ہی تھا کہ ایک پرچہ ملا جس میں لکھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض آسمانی کتابوں میں فرمایا ہے کہ خواہشیں تو میں نے اپنی مخلوق میں سے کمزوروں کے لیے بنائی ہیں تاکہ ان سے طاعتوں میں مددلیں اور جو زور آور ہیں ان کا خواہشوں سے کیا واسطہ۔ بس میں کھانے سے دستبردار ہوا اور چلتا ہوا۔ 
شیخ ابو الحسن بنان بن محمدؒ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا۔ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا ’’بنان‘‘ میں نے عرض کیا ’’لبیک یا رسول اللہ‘‘ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص نفس کے لالچ سے کھاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب کی آنکھ اندھی کر دیتا ہے اور ہم بھی ان سے نہیں ملا کرتے۔ میں بیدار ہوا اور عہد کیا کہ آئندہ کبھی سیر ہو کر نہ کھاؤں گا۔ اور اس رات میں نے دو روٹیاں اور دال کا ایک پیالہ کھایا تھا۔

English

 

My Head is Bowed to Thy Will

Major (Retd) Ghulam Muhammad

 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَنْعَمَ عَلَیْنَا وَھَدٰنَا اِلٰی دِیْنِ اْلِاْسْلَام۔

Allah the Exalted Rabb has said:

O وَّ دَاعِیاًاِلَی  اللہِ بِاذْنِہٖ وَسِرَاجاً مُنِیْراً O اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًاو مُبَشِّراً ونَذِیْراً

"Indeed We have sent you as a witness and a bringer of good tidings and a warner. And one who invites to Allah, by His permission, and an illuminating lamp." [33:45-46]

The five qualities of the Holy ProphetSall-Allahu-alaih-Wasallam have been mentioned here—a witness, a bringer of good tidings, a warner, one who invites to Allah, and an illuminating lamp. Being a witness means that the ProphetS-A-W will be the witness for the Ummah on the Judgment Day. In this regard, a long Hadees narrated by Hazrat Abu Saeed KhadriRazi Allah Anhu has been reported in the Sahi Bukhari, Nasai, Tirmzi, etc. According to the excerpts from this Hadees, when Hazrat NoohAS will present himself before Allah on the Day of Judgment, he will be asked if he delivered Allah's message to his Ummah. He will say that he had conveyed it. Then, his Ummah will be presented, and they will deny receiving any message. At that time, Hazrat NoohAS will be asked if he has a witness to support his claim that he had indeed delivered the message of Truth. He will reply that MuhammadS-A-W and his Ummah are the witness. His Ummah will argue that these witnesses were not even born in their times. How can they be the witness? The Ummah of Prophet MuhammadS-A-W will be asked to reply to this argument. They will say that although they were born much later, they had received this knowledge from their ProphetS-A-W, whom they fully trust and believe. Upon this, the Holy ProphetS-A-W will be asked to testify to his Ummah's claim. The ProphetS-A-W of Allah will confirm and endorse his Ummah through his testimony. The reality is that the Ummah's actions are presented before the ProphetS-A-W every day, morning and evening. This is the reason why heS-A-W will be made a witness of the Ummah on that Day (narrated by Ibn al-Mubarik via Saeed bin al-Musaib, Mazhari). The actions of the Ummah are replayed in 3D, as reading through written text is farther from logic. If a satellite can replay (what it records), can Allah not do such a thing for his Prophet? Moreover, the Dawwat [1]is also an extremely difficult task. It is beyond human capacity, unless Allah allows and helps him.

Another quality described here is that Hazrat MuhammadS-A-W is an illuminating lamp. Hazrat Qazi SanaullahRehmatullah Alaih has written in Tafseer-e-Mazhari that the quality “invites to Allah” pertains to the apparent and the spoken. And the quality “illuminating lamp” pertains to the Prophet’sS-A-W blessed Qalb. Just like the whole world receives light from the sun, in the same way, the Qalbs of all the believers are illuminated by the Light of the Prophet’sS-A-W Heart. This is the reason that the illustrious Companions, who benefited from the Prophet’sS-A-W company, are superior to the whole Ummah. Because their Hearts received the Faiz and the Light directly from Nabi Kareem’sS-A-W noble Heart, whereas the rest of the Ummah received this Light through the medium of the illustrious Companions, from whom it travelled through the generations, from chest to chest. It is an established belief that Rasool-AllahS-A-W and all the other ProphetsAS, after having transitioned through this world, are alive and living in their graves. Because of this life, the believers’ Hearts will continue to draw upon the Light of the Prophet’sS-A-W holy Heart. The more one respects and revers him, and the more one remains particular about the Darood Shareef, the greater the share of this Light that that person will receive.

The term “enlightened moderation” has become a buzzword in the recent years and religious fundamentalism is the target of the whole world. Following the ProphetS-A-W and the illustrious CompanionsRazi Allah Anhu one hundred percent is now considered extremism. I present before you some Verses from the Holy Quran.

فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا ط اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر

So remain on the right course as you have been commanded, [you] and those who are in your company after having repented,, and do not digress in the least. Indeed, He Sees what you do. [11:112]

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُواْ رَ بُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَا مُوْا  تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰئِکَۃُ

Indeed, those who have said, "Our Lord is Allah" and then remained on the right course—the angels will descend upon them. [41:30]

لاتَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖ اَزْوَاجاً مِّنْھُم

Do not (even) cast your eyes toward that by which We have given for enjoyment to [certain] categories of the disbelievers, and do not grieve over them. [15:88]

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُریٰٓ اٰمَنُوْ وَاتَّقَوْاْ لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْض

And if only the people of the cities had believed and feared Allah, We would have opened upon them blessings from the heaven and the earth. [7:96]

How can anyone embrace enlightened moderation after reading these Verses? In moderation, one has to follow the West, and not the Prophet and his Companions. One is supposed to imitate the western attire. One should offer his Namaz if one feels like it, and skip it if one does not. One should fast if one wants to, and not fast if one does not. Even if he keeps a beard, it should resemble Ghamdi’s[2] beard. There’s no shortage of enlightened spiritual guides, who do not offer Namaz at all. When asked the reason, they reply, “You pray five times, we pray all the time”! I also happened to meet in Jehlum one such Peer “Baba Jee”[3], who did not at all look like a Baba Jee by his appearance. When asked how he had gained the Wilayat[4], he said, “I was eighteen years old. One day, I was on the rooftop, when suddenly, the Peer of the Peers[5] appeared and poured everything he had upon me”. He has served in a bank all his life, and is now the spiritual guide of the bureaucrats. He uses a stick to ward away illness and suffering. He told me that he was looking after Pakistan, whereas his brother was responsible for India. He said he was living hand to mouth, and only possessed that 'shack' and a CNG station. The building that he was referring to as the shack must be worth tens of millions rupees, and I've heard that a CNG station involves investment to the tune of 100 to 120 million. I stayed there from Zuhr until Isha, and he did not say even a single prayer. Colonel Azmat told me that he says: "You pray five times, I pray all the time". In other words, he is all the time in the state of praying. Air Commodore Fazal Mehmood is an eyewitness of this whole incident.

We have turned away from the path of Allah's ProphetSall-Allahu-alaih-Wasallam, to please our western masters. We befriend them in the hope that that they will honor us, but they are themselves facing defeat and decline.  How can they honor anyone? Another Ayat of the Quran describes the way to get strength and honor from Allah.

اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْ فَعُہٗ

This Ayat prescribes the Kalma Tayyaba or the Kalma of Tauheed[6] (in other words, the knowledge of Allah's Being and His Qualities) and righteous actions (or acting upon the Shariah) as the recipe for acquiring honor and power.

Hazrat Shah Abdul QadirRehmatullah Alaih has written in Mauzah al-Quran that this formula for gaining respect is indeed true and effective, provided that one should be consistent in doing Zikr-Allah and performing righteous deeds. When this consistency reaches a certain preset threshold, Allah SWT blesses that person with such unending honor in this world and the Hereafter to which there is no comparison. The truth is that reciting the Kalma of Tauheed and glorifying Allah are insufficient unless righteous actions are performed. In the same way, righteous deeds also remain unadorned without doing Zikr Allah in excess. Only the excess of Zikr-Allah beautifies the deeds and makes them acceptable.

It doesn’t end here. My Allah says to his Prophet:

فاعرض عن من تولیّٰ عن ذکرنا و لم یرد الَّا الحیٰوۃَ الدُّنیا

"So turn away from whoever turns his back on Our Zikr and desires not except the worldly life." [53:29]

The relaxation of "eat and drink"[7] is meant for common folks. All such relaxations end for the person who treads the path that leads to Allah and makes Allah's Friendship his motive and objective. Allah then tests such people to see who is with Him and who is with his carnal desires. Shaykh Abdul Qadir Jilani says that he had not eaten anything for several days, when he met a person who gave him a pouch containing some Dirhams. The Shaykh bought some flat bread made of fine flour and some Halwa[8] made of dates. Just as he sat down to eat, he found a parchment on which it was inscribed: 'Allah SWT has mentioned in some heavenly Books that He has made wishes for the weaker among his people, so that they should take help from them for obeying Allah. As for the stronger, they have nothing to do with wishes.' The Shaykh says that he left the food and walked away.

Shaykh Abu Al Hassan Banan bin MuhammadRA says that he saw Allah's ProphetS-A-W in his dream. The ProphetS-A-W said, "Banan". He said, "I'm here, O Prophet of Allah". The ProphetS-A-W said, "Allah blinds the sight of the heart of the person who eats because of the desire of his Nafs[9], and I also don’t meet such people". Shaykh BananRA woke up and promised to himself that he would never eat to his stomach's fill ever again. He says that he had eaten two loaves of flat bread and a bowl of pulses that night.

Related Articles