Urdu
باتیں ان کی خو شبو خوشبو
حضرت مولانا اللہ یار خانؒ
اَلحَمْدُ لِلّٰہِ وَنَعُوْ ذُبِاللّٰہِ مِن شُرُ وُرِاَنفُسِنَاوَ مِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِناَ مَن یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُضْلِلْہٗ فَلَا ھَادِیَ لَہ وَنَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَنَشْھَدُ اَنَّ سَیِّد نَا وَمَوْلَانَامُحَمَّدً اعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہ
مجھے تقریرنہیں کرنی صرف درس دینا ہے،کچھ باتیں کرنی ہیں۔انہیں یاد رکھنا۔
سب سے پہلی چیزیہ ہے کہ ہم یہاں کیوں آتے ہیں؟اِن دیواروں کو دیکھنے؟زمین ہماری نہیں،آسمان ہمارا نہیں،نہ قبر کو دیکھنے آتے ہیں ہم اس اجتماع میں محض رضائے الٰہی کی خاطر آتے ہیں کہ یہاں لوگوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ ہماری کوئی غرض نہیں۔دوسرا یہ کہ اہلسنت و الجماعت کا اجتماعی عقیدہ ہے کہ روح سے فیض حاصل ہوتا ہے۔روح زندہ ہے،روح کی موت یہی ہے کہ اُس کا جسم سے تعلق ٹو ٹ جاتا ہے۔اس کو فناہیت کہتے ہیں۔روح کو بدن سے جُدا کئے جانے کو ہی موت کہتے ہیں۔روح کو موت نہیں آتی۔اشہد عقیدہ یہی ہے کہ فناہیت نہ آئے گی،حادث ہیں،مخلوق ہیں لیکن فنا نہ ہونگے۔جیسے جنت دوزخ فنا نہ ہونگے،بدستور رہیں گے۔اسی طرح لوحِ محفوظ،کرسی،جنت کے انعامات،حوریں غِلمان فنا نہ ہونگے۔
ہم اب اپنی بات پر آتے ہیں۔یوں سمجھ لو کہ اگر سو سال بھی قبر پر بیٹھے رہیں تو فیض حاصل نہ ہو گا جب تک کہ شیخ کے ساتھ ربط نہ ہو،اُس روح کے ساتھ ربط پیدا نہ ہو۔ربط تب پیدا ہوتا ہے جب کوئی زندہ رابطہ کروائے۔ہمارے اور اُن کے درمیان ہزارہا حجاب حائل ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈھیری مٹی کی پڑی ہے مگر اُنکے اور ہمارے درمیان بے حساب حجاب حائل ہیں۔ ا س لئے ایسا آدمی ہو جو اِن حجابات کو پھاڑے اور وہاں تک پہنچائے اور رابطہ قائم کرا دے، رشتہ قائم کرا دے۔اس کے بعد فیض حاصل ہوتا ہے۔
اب یہاں ایک مسئلہ فیض حاصل کرنے کے لئے بہت ضروری ہے اور وہ ہے شیخ۔پچھلے دنوں میں نوشہرہ بیٹھا تھا،ایک مولوی صاحب آئے،بڑے عالم و فاضل تھے،اکوڑہ خٹک میں کافی عرصہ حدیث پڑھاتے رہے۔انہوں نے دو مسئلے پوچھے۔ایک یہ کہ کیا بغیر شیخ کے روح اورقبر سے فیض حاصل ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔پھر آپ کو کیسے ہو گیا؟میں نے جواب دیا کہ میں بھی زندہ آدمی کے ذریعہ پہنچا ہوں۔میرے استاد جنہوں نے مجھے ربط شیخ کرایا اُن کے ذریعے مجھے علم ہوا۔دوسرا مسئلہ یہ کہ عارف اور ذاکر میں کیا فرق ہے؟ میں نے کہا کہ منطقی نسبت کے اعتبار سے اصول مطلق ہے۔ عارف ذاکر ہوتا ہے لیکن ہر ذاکر عارف نہیں ہوتا۔اور ذاکر کے لئے استاد کی ضرورت نہیں،شیخ کی ضرورت نہیں،ساری عمر بیٹھا ذکر کرتا رہے۔ہاں عارف کے لئے ضروری ہے کہ شیخ ہو۔شیخ کے بغیر نہیں چل سکتا۔
منازِل سلوک میں چلنے کے لئے شیخ کی اتباع اس حد تک ضروری ہے جس طرح اندھے آدمی کی لاٹھی کسی نے پکڑ لی اور دریا کے کنارے چل رہا ہے۔اندھا آدمی سیدھا اُس کے پیچھے جائے گا، مجال ہے کہ ایک قدم بھی دائیں بائیں ہو جائے کہ اُسے یقین ہے کہ اگر اِس کی اتباع نہ کی تو دریا میں ڈوب کر غرق ہو جاؤں گا،مگرمچھ کا شکار بن جاؤں گا۔پوری پوری اتباع کرتا ہے،قدم کے ساتھ قدم رکھتا ہے۔یایوں سمجھ لو کہ اندھا آدمی پہاڑ کی چوٹی پر جا رہا ہے اور اس کی لاٹھی کسی نے پکڑ رکھی ہے تو سیدھا اس کے پیچھے جائے گا کہ اس کوخبر ہے کہ اگر میں اس کی پوری اتباع نہ کرونگا تو میری ہڈیاں پسلیاں گِر کے چُور ہو جائیں گی، پرندے نوچ کھائیں گے۔اسی طرح سلوک کے معاملے میں شیخ کے پیچھے چلنا پڑتا ہے،اتباع کرنی پڑتی ہے
۔یا یوں سمجھ لیں کہ ایک شخص پہاڑ یا مکان پہ کھڑا ہو کر پتنگ اُڑا رہا ہے،پتنگ دو تین میل اوپر چلی جائے اور اُس کی ڈور ٹوٹ جائے تو وہ درختوں پہ اٹک جائے گی،پھٹ کر برباد ہو جائے گی۔وجہ کیا ہے کہ وہ ڈور جو پکڑنے والے اور پتنگ کے درمیان ہے ٹوٹ جاتی ہے،رابطہ ٹوٹ جاتا ہے،واسطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ہاں پتنگ فورََا نہیں گرتی،ہوا میں پھرتی رہتی ہے،چکر کاٹتی رہتی ہے،بالآخر گِر جاتی ہے۔اسی طرح جب شیخ کے ساتھ تعلق ٹوٹ جاتا ہے تو بلند سے بلند منازل والا بھی آہستہ آہستہ گِر جاتا ہے اور برباد ہو جاتا ہے۔
اسی طرح لطائف میں شیخ کی اتباع بھی ضروری ہوتی ہے جیسے ڈاکٹر یا حکیم کے پاس کوئی بیمار شخص جائے۔ وہ اس کے لئے دوا اور غذا تجویز کرتا ہے کہ یہ تمہارے لئے مفید ہے، پرہیز بھی بتاتا ہے اور مریض کو اس کی اتباع کرنی پڑے گی۔ اسی طرح شیخ کے لئے بھی کچھ چیزیں بہت ضروری ہیں۔ جاہل اور بد کار لوگوں کے پیچھے چل کر بہت لوگ تباہ وبرباد ہوئے ہیں۔
سب سے پہلی شرط شیخ کے لئے یہ ہے کہ عالم ہو۔یہ نہیں کہ بس کتابیں پڑھا ہوا ہی عالِم ہو گا۔صحابہ کرامؓ نے کوئی کتابیں نہیں پڑھیں،تابعین اکثر کتابیں نہیں پڑھے ہوئے، آپﷺ کی زبان مبارک سے جو نکلا انہوں نے یاد کرلیا۔پھر یہ کہ اہل سنت و الجماعت کے عقائد کا پتہ ہو۔ یاد رکھو! سوائے اہل سنت و الجماعت کے یہ چیز (سلوک) دوسروں سے نہیں ملتی۔کسی فرقے میں نہیں،دنیا میں کوئی ایسا نہیں جو کہے کہ ہمارے پاس ہے سوائے اہل سنت و الجماعت کے۔چاروں مسالک میں دیکھالیکن نورانیت حنفیہ میں زیادہ ہے اور صوفیاء کی زیادہ جماعت حنفیہ میں سے آئی ہے۔ اسی لئے شیخ کے لئے ضروری ہے کہ عالِم ہو۔ جاہل کی بیعت قطعی حرام ہے اور بیعت لینے والا فاسق، فاجر، بیعت کرنے والا بھی فاسق فاجر۔
اس کے بعد دوسری چیز یہ ہے کہ شیخ متبع شریعت ہو۔ فرائض، واجب اور مؤکدہ سنتوں کا پابند ہو۔ نوافل پڑھے یا نہ پڑھے فرائض، واجب اور سنت مؤکدہ کی پابندی ضروری ہے۔ نوافل ضروری نہیں لیکن پڑھے تو تہجد پڑھے، اوابین پڑھے اور قلب کی نگہداشت کرے یہ چیزیں شیخ کے لیے بہت ضروری ہیں۔سب علماء اس پر متفق ہیں۔جو علم ا ُس نے حاصل کیا اس میں وہ ماہر ہو۔یہ ضروری نہیں کہ وہ مرید سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو۔ تقویٰ اپنی جگہ ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ ساری جماعت ایک طرف اور قاضی صاحب اکیلے ایک پلڑے میں ہوں تو تقویٰ میں سب سے بھاری ہونگے۔ ظاہری بات ہے لیکن شیخ کے لئے یہ شرط نہیں ہاں اس فن میں ماہر ہو جو اُس سے کوئی سیکھنا چاہتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس میں خرابی پیدا کرے۔
قرآن نے شیخ کے لئے چار شرائط بتائی ہیں (۱)اونٹ کی طرح مشقت کش اور محنت کش ہو (۲) آسمان کی طرح بلند ہمت ہو(۳)پہاڑ کی طرح ثابت قدم ہو(۴) زمین کی طرح متوازن ہو یعنی عجزو انکساری اس میں ہو۔ ایسا شیخ اگر مل جائے تو اس کے قدموں کی خاک بن جا، جوتیوں کا تسمہ بن جا۔ انہی شرطوں پہ میں نے آپ کو سبق دیا ہے۔ شیخ کے آداب میں سے موٹی موٹی چیزیں میں دیکھتا رہتا ہوں جو نقصان پہنچاتی ہیں۔شیخ کے منہ کی طرف ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھا جائے۔ ڈاکٹر اور حکیم کی اتباع کرنی پڑتی ہے دوا میں، اگر نہ کرے گا تو مریض ٹھیک نہ ہو گا یا ہلاک ہو جائے گا۔
آجکل سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ تصوف کا علم بالکل نابود ہو چکا ہے۔ اس کے جاننے والے ختم ہو چکے ہیں دنیا نے اس کا انکار کر دیا ہے۔ روحانی طبیب بھی کوئی نہیں، راہبر بھی کوئی نہیں حالانکہ قرآن کریم ابتداء سے آخر تک پڑھو وہ دنیا چھڑاتا ہے، متوجہ الی اللہ کرتاہے۔ بس توجہ الی اللہ کر اور سیدھا اپنے رب سے جڑجا۔
ایک سو چار الہامی صحیفوں کا مفہوم چار کتابوں میں اور ان چار کتابوں کا مفہوم قرآن کریم میں اور سارے قرآن کریم کا مفہوم سورہ بقرہ میں اور سورہ بقرہ کا سارا مفہوم سورہ فاتحہ میں اور سورہ فاتحہ کا سارا مفہوم بسم اللہ میں ہے اور بسم اللہ کا سارا مفہوم ایک ”ب“میں ہے یہ ”ب“ وصل کی ہے۔انبیاء کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ جو مخلوق خدا سے ٹوٹ چکی،شیطان کے پنجے میں آگئی اُ س کو چھڑا کے اللہ کے ساتھ جوڑ دیں۔مطلب یہ ہے کہ ساری مخلوق کا تعلق خالق کے ساتھ ملا دیں۔بس قرآن کا فیصلہ یہ ہے کہ دنیا کی طرف سے توجہ ہٹا کر اللہ کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ جس نے انکا ر کر دیا کہ یہ کوئی شے ہی نہیں وہ اس انعام اور نعمت سے محروم ہوتا ہے۔ان میں بعض وہ ہیں جو منکر ہو گئے۔بعض وہ ہیں جو رنگ نما اور رنگ فروش ہیں۔پھر عوام ہیں کہ انہوں نے نہ سمجھا کہ رنگ ساز کون ہے اور رنگ نما و رنگ فروش کون ہے۔ان کو یہ پتہ نہ چلا کہ ڈاکٹر کون ہے اور دوا فروش کون۔مریض اور معالج کے درمیان فرق نہیں کر سکتے۔دل کے سارے مریض ہیں الا ماشاء اللہ۔
تصوف کے تین درجے ہیں۔پہلا ہے ذ کر لسانی کہ زبان کے ساتھ اللہ اللہ کیا جائے۔سبحان اللہ، لاالہ الااللہ پڑھا جائے۔دورد شریف پڑھا جائے، استغفار پڑھی جائے۔یہ درجہ ہے دوا کوٹنے کا،یہ تصوف نہیں جب تک دوا استعمال نہ کر لے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔دوم لطائف کہ دوا کا استعمال شروع ہو گیا، علاج شروع ہو گیا۔پھر منازل آتے ہیں،بیمار نے دوا کھائی،اس میں صلاحیت آنی شروع ہو گئی،اب وہ چل پھر رہا، دوڑ رہا ہے۔اللہ تعالی ٰ نے حکم دیا جن گھروں میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے۔ان گھروں کو ناپاکی سے بلند رکھو، بدبو دار چیزوں سے بھی بلند رکھو،وہاں بری چیز کوئی نہ ہو، تخلیہ ہو۔تخلیے میں بھی اندھیرا ہو،اگر اندھیرا نہیں توکپڑالپیٹ لو۔آقائے نامدارﷺ نے غارحرا میں تخلیہ کیا۔چلہ کشی انبیاء کی سنت ہے۔
جس جگہ ذکر کیا جائے وہ زمین پاک ہو۔حضر ت موسیٰ علیہ السلام کی اللہ تعالٰی سے کلام ہو رہی تھی۔حکم ہوا جوتیاں اتار دو۔یہ جگہ پاک ہے۔پانی باہر حوض سے،نالیوں سے آتا ہے اس میں کوڑا کرکٹ مل جاتا ہے، ان کو بند کر دو تاکہ باہر کی کوئی چیز قلب میں نہ جائے۔باہر کا جتنا پانی سارا روک دو۔آنکھیں،کان اور زبان بند ہو گئے جو اس کوڑا کرکٹ کو اندرلے کر آتے ہیں اب قلب میں ذکر الہٰی کا بور لگا دو اس میں اللہ کے ذکر کی مشین لگا دو تو اس میں سے انوارات کے فوارے اُبلنے لگیں گے۔ یہ انوارات کا پانی جب چلے گا یہ دوسرے دلوں کو بھی دھو کر صاف کر دے گا۔اور ان انوارات کے پانی سے کشف حاصل ہو گا۔
علمائے کرام بلکہ صوفیائے کرام نے کہا ہے کہ کافروں کوبھی کشف ہوتا ہے۔ جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ کشف کا تعلق نورِ ایمان کے ساتھ ہے، نورِایمان نہیں توکشف نہیں۔ ایمان کے نور میں زیادتی اعمالِ صالح سے ہوتی ہے۔ مومن کے دل میں استعداد موجو د ہوتی ہے۔ نور ایمان موجود ہوتاہے۔کشف کا تعلق نورِ ایمان کے ساتھ ہے۔ آنکھوں کے پتلے نہیں دیکھتے بلکہ ان کے پیچھے نور ہوتا ہے جو دیکھتا ہے۔ لاؤڈ سپیکر نہیں بولتا اس کے پیچھے جو کوئی ہے وہ بولتاہے۔ قلب خود نہیں دیکھتا بلکہ قلب میں اعمالِ صالح ہیں جن میں نور ہوتاہے اور کافر میں کہاں نورِ ایمانی، کہاں اعمالِ صالح۔ جو کافر سادھو ہوتے ہیں جن کا مشقت کر کر کے گوشت ختم ہوجاتا ہے، ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتاہے، جسم میں خون کم ہو جاتا ہے، جب خون کم ہوا تو دل میں سفیدی پیدا ہو جاتی ہے۔جس کو شک ہے تجربہ کر کے دیکھ لے۔ کلیجہ دھوپ میں رکھو، کچھ دیر بعد اس میں منہ نظر آئے گا۔ سٹیل کا برتن لو اس میں منہ نظر آئیگا۔ شیشہ لو اس میں منہ نظر آئے گا۔ اس لئے قلب کی صفائی ہوگی تو چمکے گا۔ جو چیز اس کے سامنے آئے گی اس کا عکس نظر آئے گا۔ پہاڑ کے سامنے آؤ تو پہاڑ دکھائی دے گا، درخت سامنے رکھو تو درخت نظر آئے گا۔ اگر بندہ سامنے آگیا تو بندہ نظر آئے گا۔ اس کو کشف نہیں کہتے۔ کشف کا تعلق نورِ ایمان کے ساتھ ہے۔ کیونکہ شیشے میں فرشتہ نظر نہیں آتا، جن نظر نہیں آتا، قبر کا عذاب و ثواب نظر نہیں آتا، جنت و دوزخ نظر نہیں آتی، کوئی لطیف چیز اس میں نظر نہیں آتی۔ کافر کے دل میں سفیدی پیدا ہو گئی، خون کم ہو گیا، گوشت کم ہو گیا اور چمک اجلی پیدا ہو گئی تو لوگ کہنے لگے کشف ہے۔
کافر کی مثال اس طرح ہے جیسے سمندر ٹھاٹیں مارتا ہے، پانی میں موج آئی، اس کے اوپر ایک اور آئی، اوپر سے بادلوں کا سایہ آگیا، اندھیرا ہی اندھیرا۔ کافر کا عمل اندھیرا، کافر کاقول اندھیرا کافر کے دل میں جو اعتقادات ہیں وہ سب اندھیرے ہیں۔ سب سے قریب انسان کا ہاتھ ہوتا ہے۔ آنکھوں کو لگا سکتے ہیں، سرپرلے جا سکتے ہیں۔ پھر ا سکتے ہیں۔لیکن کافر اس اندھیرے میں اپنا ہاتھ تک نہیں دیکھ سکتا۔ جس کے لئے اللہ نے نور کو پیدا ہی نہیں فرمایا۔ اس کے لئے نور آئے کہاں سے؟یہ عام دنیا میں غلط فہمی ہے کہ کافر کو کشف ہوتا ہے۔ ہم ہزار نہیں کئی ہزار صوفیا ء پیش کرتے ہیں۔ ہمارے حلقے میں آٹھ،نو سوساتھی ہیں۔ جن کو کشف ہوتاہے اور روح سے کلام ہوتی ہے۔قبر کا عذاب پتہ چلتا ہے، ثواب کا پتہ چلتا ہے، فرشتے کے ساتھ کلام ہوتی ہے ہاں اس کے لئے قلب ِسلیم ضروری ہے۔ صحابہ کرامؓ سے کوئی ہستی بڑی نہیں۔انبیاء علیہم السلام کے بعد بہت ہستیاں گزریں لیکن صحابہ کرامؓ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔
ایک عالم نے میرے سامنے شیخین کے مقابلے میں امام مہدی کی فضیلت بیان کی۔ میں نے اس سے کہا کچھ ہوش کر و اور میری بات سنو۔ ہم امام مہدی کو بہت بڑی ہستی سمجھتے ہیں مگر حضرات صدیق ؓ، فاروق ؓکی جوتی کے برابر بھی نہیں۔امام مہدی صدیوں بعد آئیں گے۔ کہاں صدیق ؓ، کہاں فاروق ؓ کہاں محمدﷺ کے صحابہؓ۔ مگر پھر بھی اللہ تعالی نے دھمکی دی ”آپ ان سے کہہ دیجیئے کہ تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہاری بیویاں تمہارے بھائی، تمہارا کنبہ اور قبیلہ، وہ مال جو تم کماتے ہو، وہ تجارت جس میں تمہیں نقصان کا ڈر ہے وہ گھر جن میں تم رہتے ہو، اگر یہ سب چیزیں تم کو اللہ اور رسول سے پیاری ہیں تو ٹھہر جاؤ! اللہ تعالی فاسقوں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا“۔باپ ہو یا بیٹا، مال ہو یا کچھ اور، جب کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں لے آئے تو وہ بدکار ہے، اس کا دل سلامت نہیں، داغدار ہے دوسرے کی محبت کے ساتھ۔ قرآن پاک نے صحابہ کرام ؓ کو دھمکی دی تو ہم کونسے باغ کی مولی ہیں۔دل ایک ہے دو نہیں۔ وہ کہتا ہے اگر اس مکان میں دوسرا کوئی آگیا تو وہ میرا شریک ہے، اضطراب پیدا ہو جائے گا۔ اس لئے انسان کو سوچنا چاہیے۔ ہم جس دور میں گزر رہے ہیں یہ بہت نازک دور ہے۔یہ سب اپنے دماغ میں بٹھا لو، بیوی بچوں سے، مال سے، دولت سے، مکان سے، دوکان سے، اونٹ، گھوڑا، بھیڑ،بکری سے ہمارا تعلق صرف حفاظت کا ہو کہ تباہ و برباد نہ ہو۔ جو قلبی تعلق ہے وہ اللہ تعالی کی ذات سے ہے۔ اس کے ساتھ عبادت کا تعلق ہے۔ جب ذکرِ الہٰی آجاتا ہے تو پوری پوری محبت آ جاتی ہے۔ پھر ساری چیزیں نکال باہر پھینکتا ہے۔
ملکہ بلقیس کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے خط لکھا کہ سرکشی، غرور و تکبر حکومت کا تمہارے دماغ میں ہے اس کو چھوڑ کرسیدھی مسلمان ہو کر میرے پاس آجاؤ۔ وہ سمجھ گئی کہ کسی اللہ والے کا خط ہے۔ یہ کچھ اور مطالبہ نہیں کرتا۔ اس نے اپنے وزیروں، مشیروں اور فوجی جرنیلوں کو بلایا۔ کہنے لگی کہ میری طرف ایک خط آیا ہے آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں۔ سب نے کہا کہ ہم بہت بڑی طاقت ہیں، ہمارے پاس بہت قوت ہے، بڑی فوج ہے، ہم جنگجو قوم ہیں، لیکن حکم آپ کا۔ آپ جیسے حکم کریں گی ہم ویسے ہی کریں گے۔ ملکہ نے کہا کہ بادشاہ جب جابرانہ قوت کے ساتھ کسی شہر میں داخل ہوتا ہے تو اس کو برباد کر دیتاہے۔ جو بڑے بڑے لوگ ہوتے ہیں ان کو ذلیل ورسوا کر دیتا ہے ہم پر حملہ ہوا تو ملک برباد ہو جائے گا۔
ہم یہاں جتنے بیٹھے ہیں عزت والے ہیں،اگر یہاں غرور وتکبر بھی دل میں بیٹھا ہے تو ذلیل ہو جائیں گے۔ذکرِ الہٰی دل سے اس مردود کو نکال باہر کرتا ہے۔پھر قلبِ سلیم پیدا ہوتا ہے اور صرف رب ہی رب دل میں رہے گا۔میرا ایک چھوٹا عزیز ہے اُس نے قاضی صاحب سے ایک دن پوچھا۔قاضی صاحب! میں نے تفسیریں پڑھی ہیں مگر قلب سلیم کی پوری پوری سمجھ نہیں آئی۔میں نے ان کو کہا کہ قلبِ سلیم میں آپ کو بتاتا ہوں۔کہ دنیا جتنی ہے،یہ آسمان وزمین،ان کی ساری مخلوقات،ان سب کو ایک مرغ بنا دو،اس کو ذبح کر دو،پھر کیا باقی بچا؟ ایک اللہ اورکچھ بھی باقی نہ بچا۔قلب کیسے کسی دوسری طرف جائے گا؟ سیدھا اللہ کے در پر جائے گا۔یہ قلبِ سلیم ہے۔
English
His Words Are Full of Fragrance
Hazrat Maulana Allah Yar Khan RA
I'm not going to make a speech, just teach a few things. Remember them. The first thing is, why do we come here ? Do we come here to look at these walls? The land is not ours, nor is the sky. Nor do we come here to look at the grave. We come to this congregation only for pleasing Allah, because people get a lot of benefit by coming here. Other than this, we have no purpose.
Secondly, it is the mutually agreed belief of Ahl-e-Sunnat wa-Al-Jamaat that Faiz (or spiritual benefit) can be acquired from the spirit. The spirit is alive. Death takes place when the connection of the spirit with the body is severed. This phenomenon is known as the demise of the form. Death, as we know it, is the separation of the spirit from the body. The spirit itself never dies. This is also the mutually agreed upon belief to which all religions testify. We have an origin, we were created, but we'll never perish. Just as the Paradise and the Hell will never perish and will be eternally present. In the same way, the Guarded Tablet, Kursi (Allah's Throne), the rewards of the Paradise, the virgins and the servants will never perish. Now, we come to our affair.
Understand this. Even if we keep sitting beside the grave for a hundred years, we can never acquire Faiz until we are not connected to the Shaykh and his spirit. The connection can only be established if a living person connects us with him. There are thousands of veils between us and them (the dwellers of the graves). We think of the grave to be a mound of dust, but actually there are countless veils that separate us from them. So, there has to be such a person who tears through these veils, takes us to the other side and establishes our connection and relationship with the person of the grave. Only then can the Faiz be extracted. For acquiring Faiz, it is imperative to have a Shaykh.
A few days back, I was sitting in Nowshehra when a Maulvi Sahib came to see me. He was quite learned and educated (in the matters of the Deen) and had been teaching Hadees in Akora Khatak for a long time. He asked two questions. The first one was: can the Faiz be acquired from the spirit or the grave without having a Shaykh? I said no. He asked: then how come you were able to extract Faiz from the grave? I said: I have also reached there through a living person. My teacher, who established my connection with my Shaykh, was the means of my knowledge.
The second question he asked was: what is the difference between an Arif and a Zakir ? I replied that it's a logically sound principle that defines the two. Every Arif is a Zakir, but every Zakir is not an Arif. To be a Zakir, no teacher of Shaykh is needed. One can keep doing Zikr all one's life by oneself. However, to be an Arif, it is mandatory to have a Shaykh. He cannot progress without a Shaykh. In order to tread on the Destinations of Salook, obedience to the Shaykh is just as crucial as if someone is holding the staff of a blind man and leading him along the bank of a river. The blind man will walk directly behind his guide. He will not dare to take a step left or right, because he knows that if he does not follow the guide, he will drown and perish in the river, or will be eaten by a crocodile. He follows completely and without fail, matching each step with his guide. Or take the example of a blind man following someone holding his stick as he climbs to the top of a mountain. He will follow straight behind his guide, because he knows that if he does not follow the guide precisely, he will fall to his bone-crushing death. Scavengers will feed on him. In the same way, one has to walk behind the Shaykh in Salook and obey him completely. Or take the example of someone who is standing on a rooftop or mountain top and flying a kite. The kite soars high and may fly two or three miles away from the person flying it, but if the string breaks, the kite will crash into the trees and be torn apart and destroyed. Why? Because, the string that connected the kite to its flyer breaks. The connection breaks. The relationship breaks. However, the kite does not fall immediately. It is carried by the wind, circles for some time, and finally, crashes. Similarly, when the connection with the Shaykh breaks, even a person having the highest Destinations falls gradually and is eventually destroyed.
Obedience to the Shaykh is also mandatory for the Lata-if. For instance, if a sick person goes to a doctor or a physician, the latter prescribes medicine and diet for the patient. He tells the patient what is beneficial to him and also advises the patient to refrain from certain things. And the patient has to follow the instructions. On the other hand, there are certain prerequisites for becoming a Shaykh as well. Many a people have been ruined as a result of following ignorant and wrongful guides.
The first condition for the Shaykh is that he must be an Aalim . It's not that only the person who has read many books is an Aalim. The illustrious Companions Razi Allah Anhu did not read any books. Most of the Tab'een did not read books. They memorized everything that the Holy ProphetSall-Allahu-alaih-Wasallam said. Then, the Shaykh must know the beliefs of the Ahl-e-Sunnat-wa-Al-Jamaat. Remember! This thing (Salook) is not to be found except from Ahl-e-Sunnat-wa-Al-Jamaat. It is not there in any other sect. There is no one in the world who can say that they have it, except Ahl-e-Sunnat-wa-Al-Jamaat. I have seen in all the four Schools (of Fiqah). There's more Light in Hanfia, and the majority of the Sufis belongs to the Hanfia School.. So, it's mandatory for the Shaykh to be an Aalim. It is strictly forbidden to do the Baet with an ignorant person. The person taking and doing such a Baet are both sinners and wrongdoers.
The other thing is that the Shaykh must be a follower of the Shariah. He must be a regular performer of the mandatory worships (Farz), obligatory worships (Wajib), and compulsory Sunnah worships (Muakkida). He may or may not perform the voluntary worships (Nafl), but the performance of the Farz, Wajib and Sunnat Muakkida is a must. Nafl is not a compulsion. But, if he does perform them, he should perform Tahajjud and Awwabeen, and should look after his Heart. All these things are extremely important for a Shaykh. All the Ulema are unanimous on this. He must be an expert at the knowledge that he has gained (Tasawwuf). It is not necessary that he is more pious and righteous than his disciples. Piety is another thing. We know that if the whole Jamaat is weighed against Qazi Sahib in piety, Qazi Sahib alone will weigh heavier. It's obvious, but it's not a condition for becoming the Shaykh. However, he must be an expert in the particular knowledge that someone wants to acquire from him. It must not happen that he distorts that knowledge.
The Quran has laid down four conditions for the Shaykh. (1) He should be hardworking and tough like a camel, (2) He should have a determination as high as the sky, (3) He should be steadfast like a mountain, (4) He should be balanced like the earth; that is, he must have the humility and selflessness. If you get such a Shaykh, become the dust in his feet. Become a lace in his shoes. I have taught you this lesson (Tasawwuf) on these very conditions.
Among the etiquettes with the Shaykh, let me mention the major things that I have observed and that harm the seeker. Do not stare at the Shaykh's face. The doctor or the physician must be obeyed for taking the medicine. If the patient does not follow the instructions, he will not be healed, or he may even die.
These days, the biggest trouble is that the knowledge of Tasawwuf has become extinct. Its experts are no more, and the world has denied it. There's no spiritual physician, no guide. If you read the Quran, from the beginning to the end, it detaches one from the world and invites attention towards Allah. Get focused on Allah and connect with Him.
The gist of 104 heavenly scriptures is included in four Books; and the gist of these four Books is in the Holy Quran; and the gist of the whole Quran is in Surah Baqrah; and the gist of the whole Surah Baqrah is in Surah Fateha; and the gist of the whole Surah Fateha is in Bismillah; and the gist of the Bismillah is in the letter "ب" . This is the "ب" of togetherness (with Allah).
The purpose of sending the Prophets is that the people who have broken their link with God and are trapped in the claws of the Satan are set free and joined with Allah. The Prophets are deputed to connect the whole mankind with Allah. This is the verdict of the Quran that people should be distracted from the world and joined with Allah.
The one who refutes this (Tasawwuf) is deprived of this reward and blessing. Some of them are absolute deniers. Some are copy cats and color-sellers. Then, there are the ordinary folks, who do not appreciate the difference between a color seller, a color copier, and a color maker. They do not distinguish a doctor from a pharmacist. They are unable to differentiate between a patient and a healer. All of them are suffering from the disease of the Heart, barring very few.
There are three degrees of Tasawwuf. The first one is to do Zikr with the tongue, that one should just repeat Allah, Allah. One should say Subhan-Allah, or La-Ilaha-il-Allah. The Darood Sharif or the Astaghfar should be recited. This is the degree where the medicine is being prepared. This is not Tasawwuf. The condition will not improve unless the medicine is used. The second degree is Lata-if, where the person starts using the medicine and the treatment has started. Then come the Destinations, as if the patient has used the medicine and gained the ability to walk about and run around.
Allah SWT has commanded that the houses where Allah's Zikr is carried out must be kept free from filthy and stinky things. There should be nothing evil at that place. There should be solitude, and the light should be put off. If there's light, you can cover your head with a piece of cloth. Our master the Holy ProphetSall-Allahu-alaih-Wasallam adopted solitude in the cave of Hira. Detachment from the world and engagement in worships is the practice (Sunnah) of the ProphetsAlaih as-Salam. The floor where Zikr is being done should be considered sacred and kept clean. When Prophet MosesAlaih as-Salam was conversing with Allah, it was decreed: 'take off your shoes. This is a holy place.' The water supply coming from outside, from a lake or through pipes, is polluted by impurities. Block this external supply, so that nothing from the outside world enters into your Heart. That's why we close our eyes, ears and mouth, so that they stop letting in the impurities from the external world. Now, bore a hole into your Heart with Zikr-Allah. Install the pump of Allah's Zikr on it. And fountains of Divine Lights will spring forth from it. When this water of Lights will flow, it will cleanse others' Hearts as well, and from this water of Lights, Kashaf will be achieved.
Some Ulema and even Sufis have said that the non-believers also have Kashaf. Upon research, it was revealed that Kashaf depends upon the Light of Faith (Iman). Without the Light of Faith, there's no Kashaf. The Light of Faith is intensified by good deeds. A person of Faith does have the capacity in his/her Heart. The Light of Faith is present in it. Kashaf is related to the Light of Faith. For example, it's not the eyeballs that see, but the light behind them that does. The loud speaker does not speak, but the person behind it does. The Qalb does not see by itself, but the Light of righteous deeds inside it does. How can a non-believer possess the Light of Faith or do righteous deeds? There are non-believers who become monks. Through tough training, their flesh is reduced to an extent that they become the likes of skeletons. The blood in their bodies is reduced. When the blood is reduced, whiteness is born in the Heart. If anyone has doubts, you can do a simple experiment. Take an animal's liver and place it in the sun. After some time, you can see your reflection in it, just like you can see it in a stainless-steel utensil or a mirror. In the same way, when the blood is reduced, the Heart will start shining. It will reflect whatever comes in front of it. If it's a mountain, you'll see the reflection of it. If it's a tree, you'll see a tree. And if a person comes in front of it, you will see that person's reflection. This is not Kashaf. Kashaf is related to the Light of Faith. You cannot see an angel or Jinn in a mirror. You cannot see the retribution and reward of the grave in it. Nor can you see the Paradise, the Hell, or any other subtle or ethereal entity. Whiteness is born in a non-believer's Heart because of a lack of blood and flesh, which people mistake as the Kashaf.
The non-believers' condition can be explained by the analogy of an ocean, in which there are gigantic waves. A wave comes, followed by the next, and they are covered by the shadow of the clouds—darkness upon darkness. A non-believer's actions, his words, and the beliefs in his heart are nothing except darkness. A person's hand is the closest to him or her. You can take your hand to your eyes, or your head, and can move it about. But the non-believer cannot see even his own hand in this pitch darkness. If Allah has not created the Light for a particular person, from where can the Light possibly come to such a person?
It's a common misconception that non-believers have Kashaf. We can present not a thousand, but several thousand Sufis. In our Circle of Zikr, there are 800-900 companions who are blessed with Kashaf and who can talk to spirits. They can perceive the punishment of the grave and the reward, and can converse with angels. But, for this to happen, a Clean Heart is a must
No personage is greater than the Companions Razi Allah Anhu. Many illustrious personalities came after the Prophets, but no one can reach the status of the CompanionsRazi Allah Anhu. An Aalim once stated the superiority of Imam Mehdi over the Shaykhs (Companions). I said to him to come to his senses and listen to me. We consider Imam Mehdi to be a very high personage, but he does not rival even the shoes of Hazrat Abu Bakr Siddique Allah Anhu and Hazrat Umar FarooqRazi Allah Anhu. Imam Mehdi will come centuries after them. There is no comparison between him and the Companions of the ProphetSall-Allahu-alaih-Wasallam. Even then, Allah warned them, "say to them (O Prophet), that unless your fathers, sons, wives, tribes and families, the money that you earn, the business in which you fear a loss, the houses where you live, if all these things are dearer to you than Allah and His Prophet, you just wait! Allah does not guide the sinners."
Father, son, wealth, or anything else, when someone brings it at par with Allah and His ProphetSall-Allahu-alaih-Wasallam, then such a person becomes a sinner. His Heart is not intact, but is stained with the love of the non-Allah. If the Quran has warned the CompanionsRazi Allah Anhu, where do we stand?
There is but a single Heart, not two. Allah says that if someone else enters this house (Heart), it is as if you are ascribing that person or thing as My partner. This will lead to anxiety. So, a man must think. The age that we live in is a transient age. Keep in mind that our relationship with our wife and kids, wealth, property, business, or the livestock that we own, must be a relationship of protecting and managing these things, so that they are not destroyed. The link of Heart must only be established with Allah. The worships also depend on this link. When Zikr-Allah comes, it brings the Love of Allah. It expels other things from the Heart.
Hazrat SulaimanAlaih as-Salam wrote a letter to Queen Bilqees, that she must quit the headstrongness, vanity and pride that occupy her mind and come to him after becoming a Muslim. She understood that this letter was from a man of Allah, because he made no other demands. She called her deputies, advisors and generals, told them about the letter, and asked for their advice. All of them said that they were a formidable power. They had a lot of strength and a huge army. They were a warlike nation. However, they said that the Queen's verdict was the final command for them. They would do exactly as she said. The Queen said that when a king enters a city with his brutal force, he ravages it and humiliates the honorable of that city. If their city were attacked, they would be routed. We, all of us who are sitting here today, are respectable people. If pride and vanity entrenches in our Hearts, we shall be humiliated too.
Allah's Zikr expels this cursed sentiment from the Heart. As a result, a Clean Heart is born, in which only Allah resides. A young relative of mine once asked Qazi Sahib that he had read explanations of the Quran (Tafseer), but could not understand what a Clean Heart is. I said to them, let me tell you about the Clean Heart. Imagine that the earth, the heaven, and the creation that they contain, is a chicken. Then, slaughter that chicken. What will be left behind then? Only Allah, and nothing else. How can the Heart go elsewhere? It will go straight to Allah's door. This is the Clean Heart.