Shikast e A'da e Hussain
دیباچہ
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم و علی آلہٖ وازواجہٖ و ذریتہٖ و اصحابہٖ اجمعین
یکم اکتوبر ۱۹۵۵ کو بمقام میرپور (آزاد کشمیر) ‘‘قاتلانِ حسینؓ’’ کے موضوع پر اہلِ سنّت والجماعت اور اہل تشیع کے مابین ایک مناظرہ ہونا طے پایا تھا۔ اہل سنّت والجماعت کی طرف سے جناب ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب اور اہل تشیع کی طرف سے جناب احمد علی شاہ صاحب مناظرہ کے منتظم و مہتمم تھے۔ شیعہ حضرات نے اس مناظرہ کے لیے اپنے معروف مناظر مولوی محمد اسماعیل گوجروی کو دعوت دی تھی جبکہ اہل و سنّت والجماعت کی طرف سے مجھے مدعو کیا گیا تھا۔
حسبِ عادت جب شیعہ مناظر مولوی محمد اسماعیل صاحب دعوت و وعدہ کے باوجود وقتِ مقررہ اور مقامِ مقررہ پر بغیر کسی جواز کے تشریف نہ لائے تو منتظمین اور حاضرین بےحد مایوس ہوئے۔ شیعہ منتظمین نے وقتِ مقررہ پر اپنے کسی دوسرے مناظر کو بھی نہ بلا کر اپنی شکست تسلیم کر لی۔ شیعہ حضرات نے بغیر مناظرہ کے شکست اس لیے قبول کر لی تھی کہ ان کے لیے ایسی شکست میدانِ مناظرہ کی یقینی شکست سے بدرجہا بہتر تھی۔
میں نے اس مناظرہ کے لیے جو دلائل مرتب کیے تھے وہ مختصر طور پر اس کتابچے میں شائع کر رہا ہوں۔ اہل تشیع کی اس شکست کی یادگار کے طور پر میں نے اس کتابچے کا نام شکست اعدائے حسینؓ رکھا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ ہر مکتبِ فکر کے لوگ اس سے کماحقہ، مستفید اور مستفیض ہوں گے۔
وَمَا توفِیقِی اِلّا بِاللّہِ
مولانا اللہ یار خان چکڑالہ
بنیادی سوال:
موضوعِ مناظرہ یہ ہے کہ قاتلانِ حسینؓ کون تھے؟
موضوع پر بحث کے لیے مندرجہ ذیل دو امور کی تفصیل میں جانا ضروری ہے:
(۱)۔ مدعیان کا دعویٰ
(۲)۔ غیر جانبدار گواہوں کی شہادت
لیکن اس سے پہلے مدعیان اور مدعا علیہم کی نشاندہی کر لینا ضروری امر ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مقدمے میں حضرت حسینؓ، حضرت زین العابدینؓ ان کے تمام رفقاء اور اہل خانہ مدعیان ہیں۔ اور قاتلانِ حسینؓ مدعا علیہم۔ اس کے بعد ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ مدعیان نے کسی شخص یا گروہ پر دعویٰ بھی دائر کیا ہے یا نہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر تفتیش کے لیے غیرجانبدار گواہوں کی شہادتیں لانی ہوں گی۔
لیکن یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ کربلا ایک لق و دق صحرا تھا جس کے گرد کسی آبادی کا وجود نہ تھا۔ موقع پر یا تو مقتولین کا گروہ تھا یا قاتلان کا۔ ایسے حالات میں غیر جانبدار گواہوں کا میسر آنا ممکن نہیں مزید پیش رفت کے لیے لامحالہ ہمیں مدعیان کے دعویٰ کی طرف ہی رجوع کرنا ہو گی۔
جب ہم مدعیان کی حیثیت پر غور کرتے ہیں تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہوں گے کیونکہ وہ خانوادۂِ رسالت کے چشم و چراغ ہیں جو تمام مسلمانوں کے نزدیک نہایت ہی محترم ہیں اور شیعہ تو انھیں امام معصوم (پاک از گناہِ صغیرہ و کبیرہ) مفرِض الطاعتہ اور مامور من اللہ مانتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے لیے جھوٹا دعویٰ دائر کرنے کی کوئی وجہ بھی تو موجود نہیں اس لیے غیر جانبدار گواہوں کی عدم موجودگی میں ہمیں قاتلانِ حسینؓ کی شناخت مدعیان کے دعویٰ کی روشنی میں کرنی ہو گی۔
ان حالات میں جو گواہی بھی لائی جائے گی وہ شہادتِ سماعی (سنی ہوئی) ہو گی نہ کہ چشم دید۔ اور ایسی گواہی میں اس بات کو ملحاظ رکھنا ہو گا کہ گواہ کا سماع قاتلوں کے گروہ کے کسی شخص سے ہے یا مقتولین میں سے۔ اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ مطلوبہ شہادت مدعیان کے دعویٰ سے بھی مطابقت رکھتی ہے یا نہیں؟ یعنی کوئی روایت یا خبر جو کسی راوی سے منسوب ہو کر کسی کتاب میں نقل ہوئی ہو تو اسے مدعیان کےدعویٰ کی کسوٹی پر پرکھنا ہو گا کیونکہ غیر جانبدار گواہوں کی عدم موجودگی میں مدعیان کا دعویٰ ہی وہ کسوٹی ہے جس کی مطابقت میں دی گئی گواہی مقبول اور اس کے خلاف دی گئی گواہی مردود قرار پائے گی۔
دعویٰ کے خلاف لائی گئی گواہی کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ جو گواہ مدعیان کے دعویٰ کے خلاف گواہی دے گا وہ دراصل "معصومین" کو جھوٹا بنانے کی جسارت کر رہا ہو گا۔ جو کہ ظاہر ہے ناقابلِ قبول اور ناقابلِ برداشت ہے۔
اس صورت میں یہ سوال کہ "قاتلین حسینؓ کون تھے؟" یہ صورت اختیار کر گیا کہ "مدعیان کا دعویٰ کن لوگوں پر ہے؟" اب اس امر کی تحقیق ہر مسلمان پر فرض ہے تاکہ وہ حقیقی مجرم کو ہی مجرم گردانے اور بےعلمی کی بناء پر بہتان طرازی کا مرتکب ہو کر اس قرآنی آیت کے تحت مجرم قرار نہ پائے۔